إِنَّا آمَنَّا بِرَبِّنَا لِيَغْفِرَ لَنَا خَطَايَانَا وَمَا أَكْرَهْتَنَا عَلَيْهِ مِنَ السِّحْرِ ۗ وَاللَّهُ خَيْرٌ وَأَبْقَىٰ
ہم اپنے رب پر ایمان لائے کہ وہ ہمارے گناہ بخشے اور یہ گناہ بھی کہ تونے ہم سے جبرا جادو کرایا اور اللہ بہتر اور (ہمیشہ) رہنے والا ہے ۔
﴿ إِنَّا آمَنَّا بِرَبِّنَا لِيَغْفِرَ لَنَا خَطَايَانَا﴾ ” ہم اپنے رب پر ایمان لائے تاکہ وہ ہماری خطائیں بخش دے۔“ یعنی ہمارے کفر اور ہمارے گناہوں کو اس لیے کہ ایمان برائیوں کا کفارہ ہے اور توبہ پچھلے گناہوں کو مٹا دیتی ہے ﴿وَمَا أَكْرَهْتَنَا عَلَيْهِ مِنَ السِّحْرِ ﴾ ” اور اس جادو کو بھی معاف کر دے جس پر تو نے ہمیں مجبور کیا۔“ یعنی وہ جس سے ہم نے حق کا مقابلہ کیا۔ جادو گروں کا یہ قول دلالت کرتا ہے کہ انہوں نے خود اختیاری سے جادو کا کام نہیں کیا تھا بلکہ فرعون نے ان کو ایسا کرنے پر مجبور کیا تھا۔ ظاہر ہوتا ہے، واللہ اعلم کہ جب موسیٰ علیہ السلام نے ان کو نصیحت کی جیسا کہ گزشتہ صفحات میں آپ کا یہ ارشاد گزر چکا ہے ﴿ وَيْلَكُمْ لَا تَفْتَرُوا عَلَى اللّٰـهِ كَذِبًا فَيُسْحِتَكُم بِعَذَابٍ﴾ (طٰهٰ: 20؍61) ” کم بختو ! اللہ پر بہتان طرازی نہ کرو، ورنہ وہ کسی عذاب کے ذریعے سے تمہاری جڑ کاٹ دے گا۔“ تو آپ کی نصیحت نے جادوگروں کو متاثر کیا اور ان کے دلوں میں جاگزین ہوگئی، اس لئے موسیٰ علیہ السلام کی نصیحت کے بعد ان کے درمیان اختلاف اور تنازع پیدا ہوا لیکن فرعون نے ان جادوگروں کو اس مکر و فریب پر عمل پیرا ہونے پر مجبور کردیا، اسی لیے نہوں نے جادو کے کرتب دکھانے سے پہلے فرعون کی بات دہرائی﴿إِنْ هَـٰذَانِ لَسَاحِرَانِ يُرِيدَانِ أَن يُخْرِجَاكُم مِّنْ أَرْضِكُم بِسِحْرِهِمَا﴾ یہ کہہ کہ وہ اپنے کام کی طرف متوجہ ہوگئے جس پر فرعون نے ان کو مجبور کیا تھا۔ شاید یہی نکتہ تھا کہ باطل کے ذریعے سے حق کی معارضت کی ناپسندیدگی ان کے دلوں میں جاگزیں ہوگئی تھی۔۔۔ انہوں نے جو کام سر انجام دیا وہ انہوں نے اغماض برتتے ہوئے سر انجام دیا۔۔۔ اسی نکتہ نے ان کے دلوں کو متاثر کیا، اس کے سبب سے اللہ تعالیٰ نے ان پر رحم فرمایا اور ان کو ایمان اور توبہ کی توفیق عطا فرمائی۔ انہوں نے کہا تو نے جو اجر و منزلت اور عزت و جاہ کا ہم سے وعدہ کیا ہے اس سے اللہ تعالیٰ کا عطا کردہ ثواب بہتر ہے اور فرعون کے اس قول کی نسبت اللہ تعالیٰ کا ثواب اور احسان باقی رہنے والا ہے۔ ﴿وَلَتَعْلَمُنَّ أَيُّنَا أَشَدُّ عَذَابًا وَأَبْقَىٰ ﴾ فرعون کی مرادیہ تھی کہ اس کا عذاب زیادہ سخت اور باقی رہنے والا ہے۔ قرآن کریم میں جہاں کہیں فرعون کے ساتھ موسیٰ علیہ السلام کا ذکر آیا ہے۔ وہاں جادوگروں کے واقعے کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے ذکر فرمایا ہے کہ فرعون نے جادوگروں کے ہاتھ پاؤں کاٹنے اور سولی دینے کی دھمکی دی تھی مگر یہ ذکر نہیں فرمایا کہ اس نے اپنی اس دھمکی پر عمل کیا تھا اور نہ ہی کسی صحیح حدیث میں اس کی تصریح آئی ہے۔ اس دھمکی پر عمل ہونے یا نہ ہونے کے بارے میں کوئی حتمی بات کہنا دلیل پر موقوف ہے (جو موجود نہیں) واللہ تعالیٰ اعلم مگر اس نے اپنے اقتدار کے بل بوتے پر ان کو جو دھمکی دی تھی، وہ اس پر عمل کی دلیل ہے۔ کیوں کہ اگر یہ واقعہ نہ ہوتا تو اللہ تعالیٰ اس کا ذکر فرما دیتا۔ ناقلین کا اس پر اتفاق ہے۔