سورة مريم - آیت 85

يَوْمَ نَحْشُرُ الْمُتَّقِينَ إِلَى الرَّحْمَٰنِ وَفْدًا

ترجمہ سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

جس دن ہم متقیوں کو رحمن کے پاس مہمان بنا کر جمع کریں گے ۔

تفسیر السعدی - عبدالرحمٰن بن ناصر السعدی

اللہ تبارک و تعالیٰ دونوں گروہوں، یعنی متقین و مجرمین کے درمیان تفاوت بیان کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ متقین کو، ان کے شرک و بدعات اور دیگر گناہوں سے بچنے کے سبب سے، قیامت کے ورز، اکرام و تعظیم کے ساتھ اکٹھا کرے گا اور وہ وفود کی صورت میں اللہ تعالیٰ کی خدمت میں حاضر ہوں گے۔ ان کی منزل اور ان کا مطلوب و مقصود رحمٰن و منان ہوگا اور یہ ضرو ری ہے کہ آنے والے کا دل امید سے لبریز ہو اور جس کے پاس آیا ہے اس پر حسن ظن ہو۔ پس اہل تقویٰ، اللہ تعالیٰ کی رحمت کے بے پایاں احسان کی امید کھتے ہوئے اور اس کی رضا کے گھر میں اس کی نوازشوں سے فوزیاب ہوتے ہوئے، اس کی خدمت میں حاضر ہوں گے اور اس کا سبب ان کے وہ نیک اعمال ہوں گے جو انہوں نے آگے بھیجے اور انہوں نے اللہ تعالیٰ کی رضا کی اتباع کی اور بے شک اللہ تعالیٰ نے بھی اپنے انبیاء و رسل کی زبان پر انکے لئے اس ثواب کا عہد کر رکھا ہے۔ پس وہ نہایت اطمینان کے ساتھ اپنے رب پر بھروسہ کرتے ہوئے اس کی طرف رواں دواں ہوں گے۔ رہے مجرم، تو ان کو پیاسا ہی جہنم کی طرف ہانکا جائے گا اور یہ ان کی بدترین حالت ہوگی کہ ان کو انتہائی ذلت و رسوائی کے ساتھ سب سے بڑے قید خانے اور بدترین عذاب میں، یعنی جہنم میں دھکیل دیا جائے گا۔ وہ تھکے ماندے سخت پیاسے ہوں گے، وہ مدد کے لئے پکاریں گے مگر ان کی مدد نہ کی جائے گی، وہ دعائیں کریں گے مگر ان کی دعائیں قبول نہ ہوں گی اور وہ سفارش تلاش کریں گے مگر ان کی سفارش نہ کی جائے گی۔