لَّا يُؤَاخِذُكُمُ اللَّهُ بِاللَّغْوِ فِي أَيْمَانِكُمْ وَلَٰكِن يُؤَاخِذُكُم بِمَا كَسَبَتْ قُلُوبُكُمْ ۗ وَاللَّهُ غَفُورٌ حَلِيمٌ
تمہاری بیہودہ قسموں (ف ٣) پر خدا تمہیں نہیں پکڑے گا لیکن جو کچھ تمہارے دل کماتے ہیں ان پر تمہیں پکڑے گا اور خدا بخشنے والا بردبار ہے ۔
یعنی اللہ تعالیٰ ان لغو قسموں پر تمہارا مواخذہ نہیں کرتا جو تمہاری زبان سے نکلتی رہتی ہیں اور بندہ بغیر کسی قصد اور ارادے کے قسمیں کھاتا رہتا ہے اور یوں ہی اس کی زبان سے بلاقصد قسمیں نکل جاتی ہیں مثلاً وہ بات چیت میں بار بار کہتا ہے ” اللہ کی قسم ! نہیں‘،اور ” ہاں ! اللہ کی قسم“ وغیرہ۔ یا جیسے وہ کسی گزرے ہوئے معاملے میں حلف اٹھاتا ہے جس کے بارے میں وہ اپنے آپ کو سچا سمجھتا ہے۔ البتہ اس قسم پر مواخذہ ہوگا جو دل سے کھائے گا۔ یہ آیت کریمہ اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ جس طرح مقاصد افعال میں معتبر ہوتے ہیں اسی طرح اقوال میں بھی مقاصد کا اعتبار ہوگا۔ ﴿ واللّٰہَ غَفُوْرٌ﴾” اللہ تعالیٰ اس شخص کو بخش دیتا ہے جو توبہ کے ذریعے سے اس کی طرف لوٹتا ہے ﴿حَلِیْمٌ﴾” جو شخص اس کی نافرمانی کرتا ہے وہ اس کے بارے میں بہت حلم سے کام لیتا ہے اور اس کو سزا دینے میں عجلت سے کام نہیں لیتا، بلکہ اپنے حلم کی بنا پر اس کی پردہ پوشی کرتا ہے اور اس پر قدرت رکھنے اور اپنے سامنے ہونے کے باوجود اس سے درگزر کرتا ہے۔