وَيَسْأَلُونَكَ عَنِ الْمَحِيضِ ۖ قُلْ هُوَ أَذًى فَاعْتَزِلُوا النِّسَاءَ فِي الْمَحِيضِ ۖ وَلَا تَقْرَبُوهُنَّ حَتَّىٰ يَطْهُرْنَ ۖ فَإِذَا تَطَهَّرْنَ فَأْتُوهُنَّ مِنْ حَيْثُ أَمَرَكُمُ اللَّهُ ۚ إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ التَّوَّابِينَ وَيُحِبُّ الْمُتَطَهِّرِينَ
اور تجھ کو حیض کی بابت پوچھتے ہیں تو کہہ وہ گندگی (ف ٢) ہے سو حیض کے وقت عورتوں سے الگ رہو اور جب تک وہ پاک نہ ہو لیں ‘ ان کے قریب نہ جاؤ پھر جب وہ پاک ہوجائیں تو ان کے پاس ادھر سے جاؤ جدھر سے خدانے تم کو حکم دیا ہے ، بیشک اللہ دوست رکھتا ہے توبہ کرنے والوں کو اور دوست رکھتا ہے پاک رہنے والوں کو ۔
اللہ تعالیٰ حیض کے بارے میں اہل ایمان کے اس سوال سے آگاہ فرماتا ہے کہ آیا ایام حیض کے شروع ہونے کے بعد عورت سے اسی طرح اختلاط رکھا جائے جس طرح ایام حیض سے قبل تھا۔ یا اس سے مطلقاً اجتناب کیا جائے جیسے یہودی کیا کرتے ہیں۔ پس اللہ تعالیٰ نے آگاہ فرمایا کہ حیض سے قبل تھا۔ یا اس سے مطلقاً اجتناب کیا جائے جیسے یہودی کیا کرتے ہیں۔ پس اللہ تعالیٰ نے آگاہ فرمایا کہ حیض ایک نجاست ہے۔ جب حیض ایک نجاست ہے تو حکمت کا تقاضا یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو اس نجاست سے روک کر اس کی حدود مقرر کر دے۔ اس لئے فرمایا : ﴿ فَاعْتَزِلُوا النِّسَاءَ فِي الْمَحِيضِ﴾” پس ایام حیض میں عورتوں سے کنارہ کش رہو۔“ یعنی مقام حیض سے دور رہو اور اس سے مراد شرم گاہ میں مجامعت ہے اور اس مجامعت کے حرام ہنے پر اجماع ہے اور حیض کے دوران مجامعت سے دور رہنے کی تخصیص اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ شرم گاہ میں مجامعت کے سوا عورت کے ساتھ اختلاط اور اس کو ہاتھ سے چھونا جائز ہے البتہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد﴿َلَا تَقْرَبُوْھُنَّ حَتّٰی یَـطْہُرْنَ ۚ﴾” جب تک پاک نہ ہوجائیں ان سے مقاربت نہ کرنا۔“ عورت کے ساتھ ایسے اختلاط کی ممانعت پر دلالت کرتا ہے جو فرج کے قریب یعنی ناف اور گھٹنے کے درمیان ہو۔ اس قسم کے اختلاط کو ترک کردینا چاہئے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب کبھی اپنی کسی بیوی کے ساتھ اختلاط کرنا چاہتے تو اسے ازار پہننے کا حکم دیتے ت ب اس کے ساتھ اختلاط کرتے۔ [صحيح بخاري، الحيض، باب مباشرة الحائض، حديث: 302] اور بیوی سے دور رہنے اور حیض کی وجہ سے قریب نہ جانے کی حد ﴿حَتّٰی یَـطْہُرْنَ ۚ﴾” یہاں تک کہ وہ پاک ہوجائیں“ مقرر فرمائی ہے۔ یعنی جب حیض کا خون منقطع ہوجائے تو وہ مانع زائل ہوجاتا ہے جو جریان حیض کے وقت موجود تھا۔ اس کے جائز ہونے کی دو شرطیں ہیں۔ (١)خون کا منقطع ہونا۔ (٢) خون کے منقطع ہونے کے بعد غسل کرنا۔ جب خون منقطع ہوجاتا ہے تو پہلی شرط زائل ہوجاتی ہے اور دوسری شرط باقی رہ جاتی ہے۔ اس لئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا﴿فَاِذَا تَطَہَّرْنَ﴾” پس جب وہ (حیض سے) پاک ہوجائیں“ یعنی غسل کرلیں ﴿ فَاْتُوْھُنَّ مِنْ حَیْثُ اَمَرَکُمُ اللّٰہُ ۭ﴾” پس تم آؤ ان عورتوں کو، جہاں سے تمہیں اللہ نے حکم دیا ہے“ قبل یعنی سامنے سے جماع کرو اور دبر سے اجتناب کرو۔ کیونکہ قبل (شرم گاہ) ہی کھیتی کا محل و مقام ہے۔ اس آیت کریمہ سے ثابت ہوتا ہے کہ حائضہ عورت پر غسل فرض ہے اور غسل کی صحت کے لئے خون کا منقطع ہونا شرط ہے اور چونکہ یہ حکم اللہ تعالیٰ کا اپنے بندوں پر لطف و کرم اور نجاستوں سے ان کی حفاظت ہے اس لئے فرمایا ﴿ اِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ التَّـوَّابِیْنَ﴾” اللہ توبہ کرنے والوں کو پسند کرتا ہے۔“ یعنی اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو پسند کرتا ہے جو ہمیشہ توبہ کرتے رہتے ہیں ﴿’ وَیُحِبُّ الْمُتَطَہِّرِیْنَ﴾اور ان لوگوں کو پسند کرتا ہے جو گناہوں سے پاک رہنے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہ آیت کریمہ حدث اور نجاست سے حسی طہارت کو شامل ہے۔ پس اس آیت سے طہارت کی مطلق مشروعیت ثابت ہوتی ہے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ اس شخص کو پسند کرتا ہے جو طہارت کی صفت سے متصف ہو۔ اس لئے مطلق طہارت صحت نماز، صحت طواف اور مصحف شریف کو چھونے کے لئے شرط ہے۔ یہ آیت کریمہ معنوی طہارت یعنی اخلاق رذیلہ، صفات قبیحہ اور افعال خسیسہ جیسی معنوی نجاستوں سے طہارت کو بھی شامل ہے۔