يَا زَكَرِيَّا إِنَّا نُبَشِّرُكَ بِغُلَامٍ اسْمُهُ يَحْيَىٰ لَمْ نَجْعَل لَّهُ مِن قَبْلُ سَمِيًّا
اے زکریا (علیہ السلام) ہم تجھے ایک لڑکے کی بشارت دیتے ہیں اس کا نام یحیٰ (علیہ السلام) ہوگا ، اس وقت سے پہلے ہم نے کوئی آدمی اس کا ہم نام نہیں کیا (ف ٢) ۔
یعنی اللہ تعالیٰ نے ان کو فرشتوں کے توسط سے ” یحییٰ“ علیہ السلام کی خوشخبری سنائی اور اللہ تعالیٰ نے اس بیٹے کو ” یحییٰ“ کے نام سے موسوم کیا۔ اسم اپنے مسمیٰ کے عین موافق تھا، چنانچہ یحییٰ علیہ السلام نے حسی زندگی بسر کی جس سے اللہ تعالیٰ کی عنایت کی تکمیل ہوئی اور آپ نے معنوی زندگی بھی بسر کی، وہ ہے وحی، علم اور دین کے ذریعے سے قلب و روح کی زندگی۔ ﴿لَمْ نَجْعَل لَّهُ مِن قَبْلُ سَمِيًّا ﴾ ” نہیں کیا ہم نے پہلے اس نام کا کوئی“ یعنی اس سے پہلے کسی کا یہ نام نہیں رکھا گیا اور یہ احتمال بھی ہے کہ اس کے معنی یہ ہوں کہ حضرت یحییٰ علیہ السلام سے پہلے آپ جیسا کوئی نہیں بنایا، تب یہ ان کی کاملیت اور اوصاف حمیدہ سے ان کے متصف ہونے کی بشارت ہے، نیز یہ کہ حضرت یحییٰ علیہ السلام اپنے سے پہلے تمام لوگوں پر فوقیت رکھتے ہیں۔۔۔.مگر اس احتمال کے مطابق، اس عموم میں سے حضرت ابراہیم، حضرت موسیٰ اور حضرت نوح علیہم السلام اور ان جیسے دیگر انبیاء کرام کو مخصوص کرنا ہوگا جو قطعی طور پر حضرت یحییٰ علیہ السلام سے افضل ہیں۔