سورة مريم - آیت 4

قَالَ رَبِّ إِنِّي وَهَنَ الْعَظْمُ مِنِّي وَاشْتَعَلَ الرَّأْسُ شَيْبًا وَلَمْ أَكُن بِدُعَائِكَ رَبِّ شَقِيًّا

ترجمہ سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

بولا اے رب میرے بدن کی ہڈیاں سست ہوگئیں ، اور سر سے بڑھا پے کا شعلہ بھڑک اٹھا ، اور میں کبھی تجھ سے اسے رب دعاکر کے محروم نہیں رہا ۔

تفسیر السعدی - عبدالرحمٰن بن ناصر السعدی

انہوں نے عرض کی : ﴿رَبِّ إِنِّي وَهَنَ الْعَظْمُ مِنِّي﴾ ” اے میرے رب ! میری ہڈیاں کمزور ہوگئی ہیں“ اور جب ہڈیاں، جو کہ بدن کا سہارا ہیں، کمزور ہوجاتی ہیں تو دیگر تمام اعضاء بھی کمزور پڑجاتے ہیں۔ ﴿وَاشْتَعَلَ الرَّأْسُ شَيْبًا﴾ ” اور بڑھکا سر بڑھاپے سے“ کیونکہ بڑھاپا ضعف اور کمزوری کی دلیل، موت کا ایلچی اور اس سے ڈرانے والا ہے۔ حضرت زکریا علیہ السلام نے اپنے ضعف اور عجز کو اللہ کی طرف وسیلہ بنایا اور اللہ تعالیٰ کے ہاں یہ محبوب ترین وسیلہ ہے کیونکہ یہ بندے کے اپنی قوت و اختیار سے براءت اور دل کے اللہ تعالیٰ کی قوت و اختیار پر بھروسہ کرنے کے اظہار پر دلالت کرتا ہے۔ ﴿وَلَمْ أَكُن بِدُعَائِكَ رَبِّ شَقِيًّا﴾ ” اور تجھ سے مانگ کر اے رب، میں کبھی محروم نہیں رہا“ یعنی اے میرے رب ! تو نے کبھی بھی میری دعا کو قبولیت سے محروم کر کے مجھے خائب و خاسر نہیں کیا بلکہ تو مجھے ہمیشہ عزت و اکرام سے نوازتا اور میری دعا کو قبول کرتا رہا ہے۔ تیرا لطف و کرم ہمیشہ مجھ پر سایہ فگن رہا اور تیرے احسانات مجھ تک پہنچتے ر ہے۔ یہ حضرت زکریا علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ کی نعمتوں اور اپنی گزشتہ دعاؤں کی قبولیت کو بارگاہ الٰہی میں بطور وسیلہ پیش کیا۔ پس حضرت زکریا علیہ السلام نے اس ہستی سے سوال کیا جس نے ماضی میں ان کو احسانات سے نوازا کہ وہ آئندہ بھی انہیں اپنی عنایات سے نوازے۔