سورة الكهف - آیت 99

وَتَرَكْنَا بَعْضَهُمْ يَوْمَئِذٍ يَمُوجُ فِي بَعْضٍ ۖ وَنُفِخَ فِي الصُّورِ فَجَمَعْنَاهُمْ جَمْعًا

ترجمہ سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

اور اس دن ہم بعض کو بعض میں موجیں مارتا چھوڑ دیں گے اور نر سنگا پھونکا جائے گا پھر ہم ان سب کو اکٹھا کریں گے ۔

تفسیر السعدی - عبدالرحمٰن بن ناصر السعدی

﴿وَتَرَكْنَا بَعْضَهُمْ يَوْمَئِذٍ يَمُوجُ فِي بَعْضٍ﴾ ”اور چھوڑ دیں گے ہم ان کے بعض کو اس دن ایک دوسرے میں گھستے“ اس میں یہ احتمال ہے کہ ضمیر یاجوج و ماجوج کی طرف لوٹتی ہو۔ جب وہ اپنے علاقوں سے نکل کر لوگوں پر حملہ آور ہوں گے تو اپنی کثرت اور تمام زمین پر پھیل جانے اور اس کو بھر دینے کی وجہ سے سمندر کی موجوں کی مانند ایک دوسرے سے گتھم ہوں گے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : ﴿حَتَّىٰ إِذَا فُتِحَتْ يَأْجُوجُ وَمَأْجُوجُ وَهُم مِّن كُلِّ حَدَبٍ يَنسِلُونَ﴾ (الانبیاء : 21 ؍96) ” یہاں تک کہ یا جوج و ماجوج کو کھول دیا جائے گا اور وہ بلند جگہ سے اتر پڑیں گے۔“ اور یہ احتمال بھی ہے کہ ضمیر خلائق کی طرف لوٹتی ہو یہ کہ لوگ قیامت کے روز اکٹھے ہوں گے وہ بہت زیادہ ہوں گے اور اضطراب، ہول اور زلزلوں کی وجہ سے ایک دوسرے کو دھکم پیل کر رہے ہوں گے اور اس کی دلیل یہ ہے کہ : ﴿وَنُفِخَ فِي الصُّورِ فَجَمَعْنَاهُمْ جَمْعًا وَعَرَضْنَا جَهَنَّمَ يَوْمَئِذٍ لِّلْكَافِرِينَ عَرْضًا الَّذِينَ كَانَتْ أَعْيُنُهُمْ فِي غِطَاءٍ عَن ذِكْرِي وَكَانُوا لَا يَسْتَطِيعُونَ سَمْعًا﴾ یعنی جب اسرافیل علیہ السلام صور پھونکیں گے تو اللہ تعالیٰ تمام ارواح کو جسموں میں واپس لوٹا دے گا۔ پھر تمام اولین و آخرین، کفار اور مومنین کو اکٹھا کر کے میدان قیامت میں جمع کرے گا، تاکہ ان سے ان کے اعمال کے بارے میں پوچھا جائے، ان کا محاسبہ کیا جائے اور ان کے اعمال کی جزا دی جائے پس کفار کو، ان کے کفر کے مطابق، جہنم میں ڈالا جائے گا جہاں وہ ابدل الآباد تک رہیں گے۔