إِنَّا مَكَّنَّا لَهُ فِي الْأَرْضِ وَآتَيْنَاهُ مِن كُلِّ شَيْءٍ سَبَبًا
ہم نے اسے زمین میں قدرت دی اور ہر شے کا سامان بھی اسے دیا (ف ١) ۔
﴿إِنَّا مَكَّنَّا لَهُ فِي الْأَرْضِ﴾ ” ہم نے اس کو قوت عطا کی تھی زمین میں“ یعنی اللہ تعالیٰ نے اسے بادشاہی سے نوازا اور زمین کے گوشوں پر اس کے حکم کو نافذ کیا اور لوگوں کو اس کا مطیع بنایا۔ ﴿وَآتَيْنَاهُ مِن كُلِّ شَيْءٍ سَبَبًافَأَتْبَعَ سَبَبًا ﴾ ” اور دیا ہم نے اس کو ہر چیز کا سامان پھر پیچھے پڑا وہ ایک سامان کے“ یعنی اللہ تعالیٰ نے اسے وہ تمام اسباب مہیا کئے جن کے ذریعے سے وہ ہر اس جگہ پہنچا جہاں وہ پہنچنا چاہتا تھا، جن کے ذریعے سے اس نے شہروں پر غلبہ حاصل کیا اور نہایت سہولت کے ساتھ دور دراز علاقوں تک پہنچ گیا۔ اس نے وہ تمام اسباب جو اللہ تعالیٰ نے اس کو عطا کئے تھے بہتر طریقے سے استعمال کئے۔ پس ہر شخص کو اسباب مہیا نہیں ہوتے اور نہ ہر شخص اسباب مہیا کرنے کی قدرت ہی رکھتا ہے۔ پس جب سبب حقیقی اور اس کو عمل میں لانے کی قدرت یکجا ہوجائے تو مقصد حاصل ہوجاتا ہے اور اگر دونوں یا کوئی ایک معدوم ہو تو مقصد حاصل نہیں ہوتا۔ اور وہ اسباب جو اللہ تعالیٰ نے اس کو عطا کئے تھے، ان کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے ہمیں آگاہ فرمایا نہ اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اور نہ اس بارے میں کوئی ایسی اخبار منقول ہیں جو افادہ علم کی موجب ہوں، اس لئے اس بارے میں سکوت اور ان اسرائیلیات کی طرف عدم التفات کے سوا کوئی چارہ نہیں جن کو ناقلین روایت کرتے ہیں۔ مگر ہم اجمالی طور پر یہ ضرور جانتے ہیں کہ داخلی اور خارجی طور پر یہ اسباب نہایت قوی تھے جن کی بنا پر اس کے پاس ایک عظیم فوج تیار ہوگئی تھی جو اپنی عددی قوت، سامان حرب اور نظم کے اعتبار سے ایک بہت بڑی فوج تھی۔ اس فوج کی مدد سے اس نے اپنے دشمنوں پر غلبہ حاصل کیا اور زمین کے مشرق و مغرب اور اس کے دور دراز گوشوں تک پہنچنے کی سہولت حاصل ہوئی۔