سورة الكهف - آیت 22

سَيَقُولُونَ ثَلَاثَةٌ رَّابِعُهُمْ كَلْبُهُمْ وَيَقُولُونَ خَمْسَةٌ سَادِسُهُمْ كَلْبُهُمْ رَجْمًا بِالْغَيْبِ ۖ وَيَقُولُونَ سَبْعَةٌ وَثَامِنُهُمْ كَلْبُهُمْ ۚ قُل رَّبِّي أَعْلَمُ بِعِدَّتِهِم مَّا يَعْلَمُهُمْ إِلَّا قَلِيلٌ ۗ فَلَا تُمَارِ فِيهِمْ إِلَّا مِرَاءً ظَاهِرًا وَلَا تَسْتَفْتِ فِيهِم مِّنْهُمْ أَحَدًا

ترجمہ سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

وہ کہیں گے کہ وہ تین شخص ہیں چوتھا ان کا کتا ہے اور بعض کہیں گے وہ پانچ ہیں چھٹا ان کا کتا ہے ، بن دیکھے اٹکلیں دوڑاتے ہیں ‘ اور یہ بھی کہیں گے کہ وہ سات ہیں اور اٹھواں ان کا کتا ہے ، تو کہہ میرا رب ان کا شمار بہتر جانتا ہے ، اور لوگ انہیں نہیں جانتے مگر تھوڑے لوگ ، سو تو ان کے بارہ میں جھگڑا نہ کر مگر سرسری جھگڑا اور انکے بارہ میں کسی اہل کتاب (ف ١) ۔ سے فتوی نہ مانگ ۔

تفسیر السعدی - عبدالرحمٰن بن ناصر السعدی

اللہ تبارک و تعالیٰ اصحاب کہف کی تعداد کے بارے میں اہل کتاب کے اختلاف کا ذکر فرماتا ہے ان کا اختلاف محض اٹکل پچو اور بے تکی باتیں تھیں۔ انہوں نے بغیر کسی علم کے یہ باتیں گھڑ لی تھیں۔ ان کی تعداد کے متعلق اہل کتاب کے تین اقوال تھے : (1) ان میں سے بعض کا خیال تھا کہ اصحاب کہف تین آدمی تھے اور چوتھا ان کا کتا تھا۔ (2) بعض کی رائے تھی کہ وہ پانچ آدمی تھے اور چھٹا ان کا کتا تھا۔۔۔۔ یہ دو قول ہیں جن کو ذکر کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ نے ان کو ( رجما بالغیب)قرار دیا ہے اور اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد ان دونوں اقوال کے بطلان پر دلالت کرتا ہے۔ (3) بعض کہتے ہیں کہ وہ تعداد میں سات تھے اور آٹھواں ان کا کتا تھا اور یہی قرین صواب ہے۔ ( واللہ اعلم) کیونکہ اللہ تعالیٰ نے پہلے دو اقوال کا ابطال کیا ہے مگر اس قول کا ابطال نہیں کیا جو اس کی صحت کی دلیل ہے۔ تاہم یہ ایسا اختلاف ہے جس کے تحت کوئی فائدہ نہیں، نہ ان کے عدد کی معرفت سے لوگوں کو کوئی دینی یا دنیاوی مصلحت حاصل ہوتی ہے۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿قُل رَّبِّي أَعْلَمُ بِعِدَّتِهِم مَّا يَعْلَمُهُمْ إِلَّا قَلِيلٌ  ﴾ ” کہہ دیجیے ! میرا رب ہی خوب جانتا ہے ان کی تعداد کو، تھوڑے لوگ ہی ان کا علم رکھتے ہیں۔“ اور یہ وہ لوگ ہیں جو صواب تک پہنچ گئے اور انہیں اپنی اصابت کا علم بھی ہوگیا۔ ﴿فَلَا تُمَارِ فِيهِمْ  ﴾ ” لہٰذا ان کے بارے میں جھگڑا نہ کیجیے“ ﴿  إِلَّا مِرَاءً ظَاهِرًا ﴾ ” مگر سرسری گفتگو“ یعنی ایسی بحث جو علم و یقین پر مبنی ہو اس میں فائدہ بھی ہو۔ رہی وہ بحث اور مجادلہ جو جہالت اور اٹکل پچو دلائل پر مبنی ہو یا اس بحث میں کوئی دینی یا دنیاوی فائدہ نہ ہو یا مد مقابل عناد رکھتا ہو یا زیر بحث مسئلہ کی کوئی اہمیت نہ ہو، اس کی معرفت سے کوئی دینی فائدہ حاصل نہ ہوتا ہو، مثلاً اصحاب کہف کی تعداد وغیرہ۔۔۔ تو اس قسم کے امور میں کثرت سے بحث مباحثہ کرنا تضیع اوقات ہے اور یہ بحث مباحثہ باہمی مودت و محبت پر بھی اثر انداز ہوتا ہے۔ ﴿ وَلَا تَسْتَفْتِ فِيهِم  ﴾ ” اور نہ پوچھیے ان کے بارے میں“ یعنی اصحاب کہف کے بارے میں ﴿ مِّنْهُمْ  ﴾ یعنی اہل کتاب میں سے ﴿ أَحَدًا ﴾ ” کسی سے بھی“ اور اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کا کلام محض اندازوں اور وہم و گمان پر مبنی ہے جو حق کے مقابلے میں کوئی فائدہ نہیں دیتا۔ اس آیت کریمہ سے مستفاد ہوتا ہے کہ جو فتویٰ دینے کی صلاحیت نہیں رکھتا اس سے استفتاء نہ کیا جائے، خواہ اس کی وجہ یہ ہو کہ جس امر کے بارے میں فتویٰ پوچھا جا رہا ہے وہ اس میں کوتاہ علم ہے یا اس کی وجہ یہ ہو کہ وہ بولتے وقت اس بات کی پروا نہیں کرتا کہ وہ کیا بول رہا ہے اور وہ ورع سے بھی خالی ہے جو اسے لا یعنی کلام سے روک دے۔ جب اس قسم کے امور میں استفتاء ممنوع ہے تو فتویٰ دینا تو بدرجہ اولیٰ ممنوع ہے۔ اس آیت کریمہ میں اس بات کی بھی دلیل ہے کہ انسان کو بسا اوقات کسی ایک امر میں استفتاء کرنے سے روکا گیا مگر کسی دوسرے معاملے میں استفتاء کی اجازت ہوتی ہے۔ پس وہ ایسے شخص سے فتویٰ : طلب کرے جو فتویٰ دینے کا اہل ہو، اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے فتویٰ پوچھنے سے علی الاطلاق منع نہیں کیا۔ اللہ تعالیٰ نے صرف اصحاب کہف کے قصے میں اور اس قسم کے دیگر واقعات میں فتویٰ پوچھنے سے روکا ہے۔