قُلْ كُلٌّ يَعْمَلُ عَلَىٰ شَاكِلَتِهِ فَرَبُّكُمْ أَعْلَمُ بِمَنْ هُوَ أَهْدَىٰ سَبِيلًا
تو کہہ ہر کوئی اپنے طور طریقے پر کام کرتا ہے سو تیرا رب اسے خوب جانتا ہے جو خوب راہ یافتہ ہے (ف ٢) ۔
﴿قُلْ كُلٌّ﴾ ” کہہ دیجیے ہر ایک“ یعنی لوگوں میں سے۔ ﴿يَعْمَلُ عَلَىٰ شَاكِلَتِهِ﴾ ” کام کرتا ہے اپنے ڈھنگ پر“ یعنی اس طریقے پر جو اس کے احوال کے لائق ہوتا ہے۔ اگر وہ نیک بندوں میں سے ہیں تو ان کا طریقہ صرف یہ ہے کہ ان کا عمل رب کائنات کی رضا کی خاطر ہوتا ہے اور اگر وہ نیک اور ابرار لوگوں کی بجائے ان لوگوں میں سے ہوں جن کو اللہ تعالیٰ ان کے حال پر چھوڑ کر ان سے الگ ہوگیا ہو تو ان کے لیے صرف وہی عمل مناسب ہوتا ہے جو اس نے مخلوق کو خوش کرنے کے لیے کیا ہو اور ان کے موافق صرف وہی عمل ہوتا ہے جو ان کی اغراض کے موافق ہو۔ ﴿فَرَبُّكُمْ أَعْلَمُ بِمَنْ هُوَ أَهْدَىٰ سَبِيلًا ﴾ ” پس تمہارا رب اس شخص سے خوب واقف ہے جو سب سے زیادہ سیدھے راستے پر ہے۔“ یعنی وہ خوب جانتا ہے کہ کون ہے جو ہدایت قبول کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ پس اسے ہدایت سے نواز دیتا ہے اور کون ہے جو صلاحیت نہیں رکھتا تو وہ اسے اپنے حال پر چھوڑ کر ہدایت سے محروم کردیتا ہے۔