وَإِن كَادُوا لَيَسْتَفِزُّونَكَ مِنَ الْأَرْضِ لِيُخْرِجُوكَ مِنْهَا ۖ وَإِذًا لَّا يَلْبَثُونَ خِلَافَكَ إِلَّا قَلِيلًا
اور وہ لوگ تو تجھے زمین (مکہ) سے دل برداشتہ کرنے ہی لگے تھے تاکہ تجھے زمین سے نکالیں اور اس صورت میں وہ بھی تیرے بعد وہاں تھوڑے ہی دنوں رہیں گے ۔
﴿وَإِن كَادُوا لَيَسْتَفِزُّونَكَ مِنَ الْأَرْضِ لِيُخْرِجُوكَ مِنْهَا﴾ ” اور یقیناً قریب تھا کہ وہ پھسلا دیں آپ کو اس زمین سے تاکہ نکال دیں وہ آپ کو یہاں سے“ یعنی آپ کے ساتھ ان کے درمیان رہنے پر بغض کے سبب سے آپ کو سر زمین مکہ سے نکالنے اور آپ کو جلا وطن کرنے کے لیے سازشیں کرتے رہے ہیں۔ اگر انہوں نے ایسا کیا تو آپ کے بعد بہت تھوڑا عرصہ یہاں ٹھہر سکیں گے یہاں تک کہ ان پر عذاب نازل ہوجائے جیسا کہ سنت الٰہی ہے اور تمام قوموں کے بارے میں سنت الٰہی میں کبھی تغیر و تبدل واقع نہیں ہوتا۔ جس قوم نے اپنے رسول کو جھٹلایا اور اس کو نکال دیا تو اللہ تعالیٰ نے اس دنیا ہی میں اس پر عذاب نازل کردیا۔ جب کفار مکہ نے آپ کے خلاف سازشیں کیں اور آپ کو مکہ مکرمہ سے نکال دیا تو وہ کچھ زیادہ عرصہ مکہ میں نہ رہے تھے کہ اللہ تعالیٰ نے ان پر میدان بدرمیں عذاب نازل کردیا، ان کے تمام بڑے بڑے اور سر کردہ سردار قتل کردیے گئے اور ان کی کمر توڑ دی گئی۔ فَلَهُ الْحَمْدُ یہ آیات کریمہ دلالت کرتی ہیں کہ بندہ اس بات کا شدید محتاج ہے کہ اللہ تعالیٰ اسے ثابت قدمی سے نوازے رکھے اور یہ بندہ گڑ گڑا کر اپنے رب سے دعا کرتا رہے کہ وہ اسے ایمان پر ثابت قدمی عطا کرے اور اس مقصد کے حصول کے لیے تمام اسباب اختیار کرنے میں کوشاں رہے۔ نبی مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مخلوق میں سب سے کامل ہستی تھے بایں ہمہ اللہ تعالیٰ نے آپ سے فرمایا : ﴿وَلَوْلَا أَن ثَبَّتْنَاكَ لَقَدْ كِدتَّ تَرْكَنُ إِلَيْهِمْ شَيْئًا قَلِيلًا ﴾ اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بارے میں جب اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد ہے تو دوسروں کے بارے میں کیا کہا جاسکتا ہے۔ ان آیات کریمہ میں اللہ کی طرف سے اس بات کی یاد دہانی ہے کہ اس نے اپنے رسول پر احسان فرمایا اور اس کو شر سے محفوظ رکھا۔ پس یہ بات دلالت کرتی ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کی طرف سے یہ امر پسند کرتا ہے کہ وہ اسباب شر کے وجود کے وقت اس کی نعمتوں کا ادراک کریں کہ اس نے ان کو شر سے بچایا اور ایمان پر ثبات عطا کیا۔ ان آیات کریمہ سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ بندے کے بلند مرتبے کے مطابق اس کو پے درپے نعمتیں عطا ہوتی ہیں۔ اسی طرح جب وہ قابل ملامت فعل سر انجام دیتا ہے تو اس کا گناہ بھی بڑا ہوتا ہے اور اس کا جرم کئی گنا زیادہ ہوجاتا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اس ارشاد کے ذریعے سے نصیحت فرمائی حالانکہ آپ ہر گناہ سے پاک اور معصوم ہیں۔ ﴿إِذًا لَّأَذَقْنَاكَ ضِعْفَ الْحَيَاةِ وَضِعْفَ الْمَمَاتِ ثُمَّ لَا تَجِدُ لَكَ عَلَيْنَا نَصِيرًا﴾ اس آیت کریمہ سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ جب اللہ تعالیٰ کسی قوم کو ہلاک کرنے کا ارادہ کرلیتا ہے تو اس کے جرائم بڑھ کر کئی گنا ہوجاتے ہیں، ان پر اللہ تعالیٰ کا فیصلہ حق ثابت ہوجاتا ہے، تب اللہ ان پر عذاب واقع کردیتا ہے جیسا کہ قوموں کے بارے میں سنت الٰہی ہے جب وہ اپنے رسول کو اس کے وطن سے نکال دیتی ہیں۔