وَإِذْ قُلْنَا لَكَ إِنَّ رَبَّكَ أَحَاطَ بِالنَّاسِ ۚ وَمَا جَعَلْنَا الرُّؤْيَا الَّتِي أَرَيْنَاكَ إِلَّا فِتْنَةً لِّلنَّاسِ وَالشَّجَرَةَ الْمَلْعُونَةَ فِي الْقُرْآنِ ۚ وَنُخَوِّفُهُمْ فَمَا يَزِيدُهُمْ إِلَّا طُغْيَانًا كَبِيرًا
اور جب ہم نے تجھ سے کہا کہ تیرے رب نے آدمیوں کو گھیر رکھا ہے ، اور وہ دکھلاوا جو ہم نے تجھے دکھلایا تھا اور وہ درکت جس پر قرآن میں لعنت ہوئی ہے ہم نے آدمیوں کیلئے فتنہ ٹھہرایا ہے اور ہم انہیں ڈراتے ہیں ، مگر یہ ڈرانا ان کی سرکشی کو اور کئی درجہ بڑھاتا ہے (ف ١) ۔
﴿وَإِذْ قُلْنَا لَكَ إِنَّ رَبَّكَ أَحَاطَ بِالنَّاسِ﴾ ” اور جب ہم نے آپ سے کہا کہ آپ کے رب نے لوگوں کو گھیر لیا ہے“ یعنی اللہ تعالیٰ نے اپنے علم و قدرت سے لوگوں کو گھیر رکھا ہے۔ پس ان کے لیے کوئی ٹھکانا نہیں جہاں یہ چھپ سکیں اور کوئی پناہ گاہ نہیں جہاں اللہ سے بھاگ کر پناہ لے سکیں اور یہ چیز عقل مند کے لیے ان امور سے باز رہنے کے لیے کافی ہے جو اللہ تعالیٰ کو ناپسند ہیں جس نے تمام لوگوں کا احاطہ کر رکھا ہے۔ ﴿وَمَا جَعَلْنَا الرُّؤْيَا الَّتِي أَرَيْنَاكَ إِلَّا فِتْنَةً لِّلنَّاسِ﴾ ” اور نہیں کیا ہم نے وہ خواب جو آپ کو دکھایا مگر لوگوں کی آزمائش کے لیے۔“ اکثر مفسرین کی رائے ہے کہ اس سے مراد شب معراج ہے۔ ﴿وَالشَّجَرَةَ الْمَلْعُونَةَ فِي الْقُرْآنِ﴾ ” اور (ایسے ہی) وہ درخت جس پر قرآن میں پھٹکار ہے“ جس کا ذکر قرآن مجید میں کیا گیا ہے اور اس سے مراد زقوم (تھوہر) کا پودا ہے جو جہنم کی تہہ سےا گتا ہے۔۔۔ معنی یہ ہے کہ یہ دونوں امور لوگوں کے لیے آزمائش بن گئے یہاں تک کہ کفار اپنے کفر پر جم گئے اور ان کا شر اور زیادہ ہوگیا۔ جب آپ نے ان کو بعض امور کے بارے میں آگاہ فرمایا جن کا آپ نے معراج کی رات مشاہدہ فرمایا تھا اور آپ نے خبر دی تھی کہ ” مجھے راتوں رات مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ تک لے جایا گیا“ جو ایک خارق عادت واقعہ تھا تو بعض کمزور ایمان والے اپنے ایمان سے پھر گئے۔ زقوم کے پودے کے بارے میں خبر دینا، جو جہنم کی تہہ سے اگتا ہے، یہ بھی ایک خارق عادت معاملہ ہے جو ان کے لیے تکذیب کا موجب بنا۔ پس اگر وہ اللہ تعالیٰ کی بڑی بڑی نشانیاں اور بڑے بڑے خارق عادت واقعات کا مشاہدہ کرلیتے تو ان کا کیا حال ہوتا؟ اور اس کے سبب سے ان کے شر میں اضافہ نہ ہوجاتا؟ بنا بریں اللہ تعالیٰ نے ان پر رحم کرتے ہوئے ان خوارق کو ان سے ہٹا دیا۔ یہ جن سے آپ کو معلوم ہوجاتا ہے کہ بڑے بڑے امور کا قرآن و سنت میں صراحت کے ساتھ مذکور نہ ہونا زیادہ بہتر اور اولیٰ ہے کیونکہ وہ امور جن کی نظیر کا لوگوں نے مشاہدہ نہ کیا ہو بسا اوقات ان کی عقل ان کو قبول نہیں کر پاتی اور یوں یہ چیز بعض اہل ایمان کے دلوں میں شکوک و شبہات کا باعث بنتی ہے اور ایسا مانع رکاوٹ بن جاتی ہے جو لوگوں کو اسلام میں داخل ہونے سے روکتی ہے اور ان کو اسلام سے متنفر کرتی ہے، اس لیے اللہ تعالیٰ نے عام الفاظ استعمال کئے ہیں جو تمام امور کو شامل ہیں۔ ﴿وَنُخَوِّفُهُمْ فَمَا يَزِيدُهُمْ إِلَّا طُغْيَانًا كَبِيرًا ﴾’’اور ہم ان کو ڈراتے ہیں (نشانیوں کے ساتھ) تو وہ ان کو بڑی شرارتوں میں زیادہ ہی کرتی ہیں۔‘‘ تخویف ان کی سرکشی کو اور زیادہ بڑھا دیتی ہے اور شر کی محبت اور خیر سے بغض رکھنے اور خیر کی عدم پیروی کے بارے میں بلیغ ترین پیرایہ ہے۔