سورة البقرة - آیت 193

وَقَاتِلُوهُمْ حَتَّىٰ لَا تَكُونَ فِتْنَةٌ وَيَكُونَ الدِّينُ لِلَّهِ ۖ فَإِنِ انتَهَوْا فَلَا عُدْوَانَ إِلَّا عَلَى الظَّالِمِينَ

ترجمہ سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

ان سے یہاں تک لڑو کہ فسادباقی نہ رہے اور دین خدا کا ہوجائے ، پھر اگر وہ باز آجائیں تو بجز ظالموں کے کسی پر زیادتی نہیں چاہئے ۔

تفسیر السعدی - عبدالرحمٰن بن ناصر السعدی

پھر اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنے راستے میں اس قتال اور جہاد کا مقصد بیان فرمایا ہے۔ قتال فی سبیل اللہ کا مقصد یہ نہیں کہ کفار کا خون بہایا جائے اور انکے اموال لوٹ لیے جائیں، بلکہ جہاد کا مقصد صرف یہ ہے ﴿ وَّیَکُوْنَ الدِّیْنُ لِلّٰہِ ۭ ﴾” کہ دین اللہ کا ہوجائے“ یعنی اللہ تعالیٰ کا دین تمام ادیان پر غالب آجائے اور شرک وغیرہ اور ان تمام نظریات کا قلع قمع کردیا جائے جو اللہ کے دین کے منافی ہیں اور فتنہ سے بھی یہی مراد ہے۔ جب یہ مقصد حاصل ہوجائے تو قتل کرنا اور لڑائی کرنا جائز نہیں۔ ﴿فَاِنِ انْتَہَوْا ﴾” پس اگر وہ باز آجائیں۔“ یعنی اگر وہ مسجد حرام کے قریب تمہارے ساتھ لڑائی کرنے سے باز آجائیں۔ ﴿ فَلَا عُدْوَانَ اِلَّا عَلَی الظّٰلِمِیْنَ﴾ تو ظالموں کے سوا کسی پر زیادتی نہیں۔“ یعنی تمہاری طرف سے ان پر کوئی ظلم اور زیادتی نہیں ہونی چاہئے، سوائے اس کے جس نے ظلم کا ارتکاب کیا ہو تو ایسا شخص اپنے ظلم کے برابر سزا کا مستحق ہے۔