وَمَا أَرْسَلْنَا مِن قَبْلِكَ إِلَّا رِجَالًا نُّوحِي إِلَيْهِمْ ۚ فَاسْأَلُوا أَهْلَ الذِّكْرِ إِن كُنتُمْ لَا تَعْلَمُونَ
اور تجھ سے پہلے بھی ہم نے آدمی ہی بھیجے تھے ان کی طرف ہم وحی بھیجتے تھے ، سو اگر تم نہیں جانتے تو اہل ذکر (یعنی اہل کتاب) سے پوچھ لو (ف ١) ۔
اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے نبی محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم سے فرماتا ہے : ﴿وَمَا أَرْسَلْنَا مِن قَبْلِكَ إِلَّا رِجَالًا ﴾ ” نہیں بھیجا ہم نے آپ سے پہلے مگر مردوں ہی کو“ یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کوئی نئے اور انوکھے رسول نہیں ہیں۔ پس آپ سے پہلے ہم نے فرشتوں کو رسول بنا کر نہیں بھیجا بلکہ کامل ترین انسانوں ہی کو رسول بنا کر بھیجا ہے اور اسی طرح عورتوں میں سے بھی کسی عورت کو رسول نہیں بنایا۔ ﴿ نُّوحِي إِلَيْهِمْ ۚ ﴾ ” وحی کرتے تھے ہم ان کی طرف“ ہم ان رسولوں کی طرف شریعت اور احکام وحی کرتے تھے جو بندوں پر اللہ تعالیٰ کا فضل و احسان ہے اور یہ رسول اپنی طرف سے کچھ نہیں کہتے۔ ﴿فَاسْأَلُوا أَهْلَ الذِّكْرِ ﴾ ” پس پوچھ لو یاد رکھنے والوں سے“ یعنی اہل کتاب سے ﴿إِن كُنتُمْ لَا تَعْلَمُونَ ﴾ ” اگر تم نہیں جاتے۔“ یعنی اگر تمہیں گزشتہ امتوں کے بارے میں کوئی خبر نہیں اور تمہیں شک ہے کہ آیا اللہ تعالیٰ نے انسانوں کو رسول بنایا ہے یا نہیں تو تم ان لوگوں سے پوچھ لو جو اس کا علم رکھتے ہیں جن پر اللہ تعالیٰ کی کتابیں اور معجزات نازل ہوئے جنہوں نے ان کتابوں کو پڑھا اور سمجھا۔ ان سب کے ہاں یہ بات متحقق ہے کہ اللہ تعالیٰ نے بستیوں میں سے صرف انسانوں ہی کو رسول بنا کر بھیجا ہے۔ اس آیت کریمہ کا عموم اہل علم کی مدح پر دلالت کرتا ہے، نیز علم کی تمام انواع میں کتاب اللہ کا علم بلند ترین علم ہے، اس لئے اللہ تعالیٰ نے اس شخص کو جو علم نہیں رکھتا حکم دیا ہے کہ وہ تمام حوادث میں اہل علم کی طرف رجوع کرے۔ یہ آیت کریمہ اہل علم کی تعدیل اور ان کے تزکیہ کو بھی متضمن ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ان سے سوال کرنے کا حکم دیا ہے، نیز جاہل آدمی اہل علم سے سوال کرنے پر گرفت سے نکل جاتا ہے۔ یہ آیت کریمہ دلالت کرتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اہل علم کو اپنی وحی اور تنزیل کا امین بنایا ہے اور وہ تزکیہ اور صفات کمال سے متصف ہونے پر مامور ہیں اور اہل ذکر میں بہترین لوگ اہل قرآن ہیں کیونکہ وہی در حقیقت اہل ذکر ہیں اور دوسروں کی نسبت زیادہ اس نام کے مستحق ہیں، اس لئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا :