هَٰذَا بَلَاغٌ لِّلنَّاسِ وَلِيُنذَرُوا بِهِ وَلِيَعْلَمُوا أَنَّمَا هُوَ إِلَٰهٌ وَاحِدٌ وَلِيَذَّكَّرَ أُولُو الْأَلْبَابِ
یہ لوگوں کو پہنچا دینا ہے ، اور تاکہ وہ اس سے ڈرائے جائیں ، اور تاجانیں ، کہ وہی ایک معبود ہے اور تاکہ عقلمند نصیحت پکڑیں ۔
جب اللہ تبارک و تعالیٰ نے اس بات کو پوری طرح کھول کھول کر اس قرآن میں بیان کردیا تو پھر اس کی مدح میں فرمایا ﴿ هَـٰذَا بَلَاغٌ لِّلنَّاسِ﴾ ” یہ خبر پہنچا دینی ہے لوگوں کو“ یعنی یہ ان کے لئے کافی ہے، وہ اسے زاد راہ بنا کر بلند ترین مقامات پر اور افضل ترین کرامات تک پہنچ سکتے ہیں کیونکہ یہ تمام علوم اور اصول و فروع پر مشتمل ہے جس کے بندے محتاج ہیں ﴿وَلِيُنذَرُوا بِهِ﴾ ” اور تاکہ انہیں اس سے ڈرایا جائے“ کیونکہ اس میں برے اعمال اور اس عذاب سے ڈرایا گیا ہے جو اللہ تعالیٰ نے بد اعمال لوگوں کے لئے تیار کر رکھا ہے۔ ﴿وَلِيَعْلَمُوا أَنَّمَا هُوَ إِلَـٰهٌ وَاحِدٌ﴾ ” اور تاکہ وہ جان لیں کہ معبود صرف وہی ایک ہے“ کیونکہ اس میں اللہ تعالیٰ نے اپنی الوہیت اور وحدانیت پر ایسے دلائل اور براہین بیان کئے ہیں جن سے یہ علم حق الیقین بن جاتا ہے ﴿وَلِيَذَّكَّرَ أُولُو الْأَلْبَابِ﴾ ”اور تاکہ اہل عقل نصیحت پکڑیں۔“ یعنی عقل کامل کے حامل لوگ اس سے نصیحت پکڑیں، وہ کام کریں جو ان کے لئے فائدہ مند ہے اور وہ کام چھوڑ دیں جو ان کے لئے نقصان دہ ہے۔ ایسا کرنے سے وہ عقل مند اور اصحاب بصیرت بن جائیں گے۔ اس لئے کہ قرآن کے ذریعے سے ان کے معارف اور آراء صائبہ میں اضافہ اور ان کے افکار روشن ہوتے ہیں۔ کیونکہ انہوں نے قرآن کے تازہ افکار حاصل کئے ہیں، قرآن انہیں بلند ترین اخلاق و اعمال کی طرف دعوت دیتا ہے اور وہ ان پر قوی ترین، واضح ترین دلائل سے استدلال کرتا ہے۔ ایک ذہین بندہ مومن جب اس قاعدہ کلیہ کو اپنا لائحہ عمل بنا لیتا ہے تو وہ دائمی طور پر ہر قابل ستائش خصلت میں ترقی کی راہوں پر گامزن رہتا ہے۔