سورة ابراھیم - آیت 26

وَمَثَلُ كَلِمَةٍ خَبِيثَةٍ كَشَجَرَةٍ خَبِيثَةٍ اجْتُثَّتْ مِن فَوْقِ الْأَرْضِ مَا لَهَا مِن قَرَارٍ

ترجمہ سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

اور ناپاک بات کی مثال ناپاک درخت کی مانند ہے جو زمین کے اوپر سے اکھاڑا گیا ۔ اسے قرار نہیں (ف ٢)

تفسیر السعدی - عبدالرحمٰن بن ناصر السعدی

پھر اللہ تبارک وتعالیٰ نے کلمۂ توحید کی ضد کلمۂ کفر اور اس کی شاخوں کا ذکر فرمایا۔ چنانچہ فرمایا : ﴿وَمَثَلُ كَلِمَةٍ خَبِيثَةٍ كَشَجَرَةٍ خَبِيثَةٍ﴾ ”اور گندی بات کی مثال، جیسے گندادرخت ہے“ جو کھانے اور ذائقے میں بدترین درخت ہے اور اس سے مراد اندرائن وغیرہ کا پودا ہے ﴿اجْتُثَّتْ﴾ یعنی اس پودے کو اکھاڑ لیا گیا ﴿مِن فَوْقِ الْأَرْضِ مَا لَهَا مِن قَرَارٍ﴾ ” زمین کے اوپر سے، اس کو کوئی ٹھہراؤ نہیں“ یعنی اس پودے کو ثبات حاصل نہیں اس پودے کی رگیں نہیں ہیں جو اس کو سہارا دے کر کھڑا کرسکیں اور نہ یہ کوئی اچھا پھل لاتا ہے بلکہ اس میں پھل پایا بھی جاتا ہے تو انتہائی بدذائقہ۔ اسی طرح کفر اور گناہ کی بات قلب میں کوئی فائدہ مند مضبوطی اور ثبات پیدا نہیں کرتی، اس کا ثمرہ بھی قول خبیث اور عمل خبیث کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے جو اس کو تکلیف دیتا ہے۔ اس بندے کی طرف سے کوئی عمل صالح اللہ تعالیٰ کی طرف بلند نہیں ہوتا۔ اس قول وعمل سے وہ خود منتفع ہوتا ہے نہ کوئی اور۔