سورة الرعد - آیت 2

اللَّهُ الَّذِي رَفَعَ السَّمَاوَاتِ بِغَيْرِ عَمَدٍ تَرَوْنَهَا ۖ ثُمَّ اسْتَوَىٰ عَلَى الْعَرْشِ ۖ وَسَخَّرَ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ ۖ كُلٌّ يَجْرِي لِأَجَلٍ مُّسَمًّى ۚ يُدَبِّرُ الْأَمْرَ يُفَصِّلُ الْآيَاتِ لَعَلَّكُم بِلِقَاءِ رَبِّكُمْ تُوقِنُونَ

ترجمہ سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

اللہ وہ ہے جس نے بےستون آسمان اونچے کیے جنہیں تم دیکھتے ہو پھر عرش پر قرار پکڑا (ف ١) ۔ اور سورج اور چاند کو مسخر کیا ہر ایک وقت معین تک چلتا ہے ۔ کام کی تدبیر کرتا ہے ۔ اور آیتوں کو کھول کر بیان کرتا ہے ، شاید تم اپنے رب کی ملاقات کا یقین کرو (ف ٢)

تفسیر السعدی - عبدالرحمٰن بن ناصر السعدی

اللہ تبارک و تعالیٰ آگاہ فرماتا ہے کہ وہ تخلیق و تدبیر اور عظمت و سلطان میں منفرد ہے اس کی یہ وحدانیت دلالت کرتی ہے کہ وہ اکیلا معبود ہے جس کے سوا کسی کی بندگی نہیں کرنی چاہئے، چنانچہ فرمایا : ﴿اللَّـهُ الَّذِي رَفَعَ السَّمَاوَاتِ ﴾ ” اللہ وہی تو ہے جس نے آسمانوں کو بلند کیا“ آسمانوں کے بہت بڑے اور بہت وسیع ہونے کے باوجود اللہ تعالیٰ نے ان کو بلند کر رکھا ہے۔ ﴿بِغَيْرِ عَمَدٍ تَرَوْنَهَا ۖ ﴾ ” ستونوں کے بغیر جیسا کہ تم دیکھتے ہو“ یعنی آسمانوں کو سہارا دینے کے لئے ان کے نیچے کوئی ستون نہیں اور ان کو ستون نے سہارا دیا ہوتا تو وہ تمہیں ضرور دکھائی دیتے۔ ﴿ثُمَّ  ﴾ ” پھر“ یعنی آسمانوں اور زمین کی تخلیق کے بعد ﴿اسْتَوَىٰ عَلَى الْعَرْشِ ﴾ ” وہ عرش پر مستوی ہوا۔“ وہ عرش عظیم جو اعلیٰ ترین مخلوق ہے۔ استواء کی کیفیت وہ ہے جو اس کے جلال کے لائق اور اس کے کمال کے مناسب ہے۔ ﴿وَسَخَّرَ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ ۖ ﴾ ” اور سورج اور چاند کو مسخر کردیا۔“ بندوں کے مصالح نیز ان کے مویشیوں، باغات اور کھیتوں کے مصالح کی خاطر ﴿كُلٌّ ﴾ ” ہر ایک“ یعنی چاند اور سورج ﴿يَجْرِي ﴾ ” چل رہا ہے۔“ یعنی غالب اور علم والی ہستی کے مقرر کردہ اندازے پر چل رہا ہے۔ ﴿لِأَجَلٍ مُّسَمًّى﴾ ” ایک وقت مقرر تک“ دونوں ایک منظم رفتار سے چل رہے ہیں جس میں کوئی فرق آتا ہے نہ ان کی رفتار میں کوئی سستی آتی ہے۔ یہاں تک کہ وہ وقت مقرر آجائے گا اور اللہ اس جہان آب و گل کی بساط لپیٹ دے گا اور بندوں کو دارآخرت میں منتقل کر دے گا۔ جو ہمیشہ رہنے کی جگہ ہے۔ تب اس وقت اللہ تعالیٰ ان آسمانوں کو لپیٹ دے گا اور ان کو اور ہی آسمانوں سے بدل دے گا اور اسی طرح اس زمین کو دوسری زمین سے بدل دے گا۔ سورج اور چاند بے نور کردیئے جائیں گے اور ان کو اکٹھا کر کے جہنم میں پھینک دیا جائے گا۔ تاکہ ان کی عبادت کرنے والے دیکھ لیں کہ وہ عبادت کے مستحق نہ تھے تاکہ وہ سخت حسرت زدہ ہوں اور کفار کو معلوم ہوجائے کہ وہ جھوٹے تھے۔ ﴿ يُدَبِّرُ الْأَمْرَ يُفَصِّلُ الْآيَاتِ ﴾ ” تدبیر کرتا ہے کام کی، وہ کھول کر بیان کرتا ہے آیتوں کو“ یہاں خلق و امر کو اکٹھا بیان کیا گیا ہے یعنی اللہ عظمت والا تخت اقتدار پر مستوی ہے اور وہ عالم علوی اور عالم سفلی کی تدبیر کر رہا ہے، پس وہی پیدا کرتا ہے اور رزق عطا کرتا ہے، وہی غنی کرتا اور محتاج کرتا ہے، وہ کچھ قوموں کو سربلند کرتا ہے اور کچھ قوموں کو قعر مذلت میں گرا دیتا ہے، وہی عزت عطا کرتا ہے، وہی ذلت سے ہمکنار کرتا ہے، وہی گراتا ہے اور وہی رفعتیں عطا کرتا ہے، وہی لغزشوں پر عذر قبول کرتا ہے، وہی مصیبتوں اور تکلیفوں کو دور کرتا ہے، وہی تقدیر کو اس کے وقت مقرر پر نافذ کرتا ہے، جو اس کے احاطہ علم میں ہے اور جس پر اس کا علم جاری ہوچکا ہے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ ان فرشتوں کو تدبیر کائنات کے لئے بھیجتا ہے جن کو اس تدبیر کے لئے مقرر کر رکھا ہے۔ وہ کتب الٰہی کو اپنے رسولوں پر نازل فرماتا ہے، احکام شریعت اور اوامرونواہی کے جن کے بندے سخت محتاج ہیں، کھول کھول کر بیان کرتا ہے تو ضیح، تبیین، اور تمیز کے ذریعے سے ان کی تفصیل بیان کرتا ہے ﴿لَعَلَّكُم  ﴾ ” شاید کہ تم“ یعنی اس سبب سے کہ اس نے تمہیں آفاق میں اپنی نشانیاں دکھائیں اور تم پر آیات قرآنیہ نازل فرمائیں ﴿بِلِقَاءِ رَبِّكُمْ تُوقِنُونَ ﴾ ” اپنے رب کی ملاقات کا یقین کرو۔“ کیونکہ دلائل کی کثرت اور ان کی توضیح وتبیین تمام امور الٰہیہ میں، خاص طور پر بڑے بڑے عقائد مثلاً زندگی بعد موت اور قبروں سے نکلنے میں یقین کے حصول کا سبب بنتی ہے۔ نیز ہمیں یہ بھی معلوم ہے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ ﴿حَكِيمٌ ﴾ ” حکمت والا“ ہے وہ مخلوق کو بے فائدہ پیدا نہیں کرتا، نہ وہ ان کو عبث چھوڑے گا۔ پس جیسے اس نے انبیاء و مرسلین مبعوث کئے اور بندوں کے لئے اوامرونواہی کی طرح کتابیں نازل فرمائیں۔ تب یہ ضروری ٹھہرا کہ وہ بندوں کو ایک ایسے جہاں میں منتقل کرے جہاں انہیں ان کے اعمال کی جزا دی جائے۔ نیکو کاروں کو بہترین بدلہ اور بدکاروں کو ان کی بدی کا بدلہ۔