سورة البقرة - آیت 164

إِنَّ فِي خَلْقِ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَاخْتِلَافِ اللَّيْلِ وَالنَّهَارِ وَالْفُلْكِ الَّتِي تَجْرِي فِي الْبَحْرِ بِمَا يَنفَعُ النَّاسَ وَمَا أَنزَلَ اللَّهُ مِنَ السَّمَاءِ مِن مَّاءٍ فَأَحْيَا بِهِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِهَا وَبَثَّ فِيهَا مِن كُلِّ دَابَّةٍ وَتَصْرِيفِ الرِّيَاحِ وَالسَّحَابِ الْمُسَخَّرِ بَيْنَ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ لَآيَاتٍ لِّقَوْمٍ يَعْقِلُونَ

ترجمہ سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

بےشک آسمانوں اور زمین کی پیدائش میں اور دن رات کی تبدیلی میں اور کشتی میں جو دریا میں لوگوں کو نفع پہنچانے کے لئے چلتی ہے اور اس میں جو اللہ نے آسمان سے پانی اتارا اور اس نے زمین کو اس کے مرے پیچھے زندہ کیا اور اس میں ہر قسم کے حیوان بکھیرے اور ہواؤں کے پھیرنے میں اور بادل جو آسمان وزمین کے درمیان قابو کیا ہوا ہے عقل والوں کے لئے نشانیاں ہیں (ف ١) ۔

تفسیر السعدی - عبدالرحمٰن بن ناصر السعدی

اللہ تبارک و تعالیٰ نے خبر دی ہے کہ ان عظیم مخلوقات میں باری تعالیٰ کی وحدانیت اور اس کی الوہیت، اس کی عظیم قدرت، رحمت اور اس کی تمام صفات کے دلائل ہیں، لیکن یہ تمام دلائل صرف ان لوگوں کے لیے ہیں جو ان امور میں اپنی عقل استعمال کرتے ہیں جن کے لیے عقل پیدا کی گئی ہے۔ پس اللہ تعالیٰ نے اپنے بندے کو جتنی عقل سے نوازا ہے وہ اتنا ہی آیات الٰہی سے فائدہ اٹھاتا ہے اور اپنی عقل اور تفکر و تدبر سے ان آیات کی معرفت حاصل کرتا ہے۔ پس ﴿ فِیْ خَلْقِ السَّمٰوٰتِ﴾ ” آسمانوں کے پیدا کرنے میں۔“ یعنی آسمانوں کی بلندی، ان کی وسعت، ان کے محکم اور مضبوط ہونے میں، نیز ان آسمانوں میں سورج، چاند اور ستاروں کی تخلیق اور بندوں کے مصالح کے لیے ان کی منظم گردش میں۔ ﴿ وَالْاَرْضِ ﴾” اور زمین میں“ یعنی مخلوق کے لیے فرش کے طور پر زمین کو پیدا کیا تاکہ وہ اس پر ٹھہر سکیں اور زمین اور جو کچھ اس کے اوپر ہے اس سے استفادہ کریں۔ نیز اس سے عبرت حاصل کریں کہ تخلیق اور تدبیر کائنات میں اللہ تعالیٰ ایک متفرد ہے اور اس میں اللہ تعالیٰ کی عظیم قدرت کا بیان ہے جس کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ نے اس زمین کو تخلیق کیا اور اس کی حکمت کا، جس کی بنا پر اس نے زمین کو محکم، حسین اور موزوں بنایا اور اس کی رحمت اور علم کا، جن کی بنا پر اس نے زمین کے اندر مخلوقات کے فائدے کی اشیاء اور ان کی حاجات و ضروریات ودیعت کیں اور اس میں اس کے کمال اور اس کے واحد لائق عبادت ہونے پر سب سے زیادہ مؤثر دلیل ہے، کیونکہ کائنات کی پیدائش اور اس کی تدبیر اور تمام بندوں کے معاملات کا انتظام کرنے میں وہ متفرد ہے (اس لیے عبادت کا تمام تر مستحق بھی صرف وہی ہے نہ کہ کوئی اور، جن کا کوئی حصہ پیدائش میں ہے نہ تدبیر میں اور نہ بندوں کے معاملات کے انتظام میں) ﴿ وَاخْتِلَافِ الَّیْلِ وَالنَّہَارِ﴾ ” اور رات اور دن کے ایک دوسرے کے پیچھے آنے جانے میں۔“ یعنی رات اور دن کادائمی طور پر ایک دوسرے کے تعاقب میں رہنا۔ جب ان میں سے ایک گزر جاتا ہے تو دوسرا اس کے پیچھے پیچھے آتا ہے۔ گرمی، سردی اور معتدل موسم میں، دنوں کا لمبا، چھوٹا اور متوسط ہونا اور ان کی وجہ سے موسموں میں تغیر و تبدل کا ہونا۔ جن کے ذریعے سے تمام بنی آدم، حیوانات اور روئے زمین کی تمام نباتات کا انتظام ہوتا ہے۔ یہ سب کچھ ایک ایسے انتظام، تدبیر اور تسخیر کے تحت ہو رہا ہے جسے دیکھ کر عقلیں حیرت زدہ رہ جاتی ہیں اور بڑے بڑے عقل مند لوگ اس کے ادراک سے عاجز ہیں۔ یہ چیز اس کائنات کی تدبیر کرنے والے کی قدرت، علم و حکمت، رحمت واسعہ، لطف و کرم، اس کی اس تدبیر و تصرف، جس میں وہ اکیلا ہے، اس کی عظمت، اقتدار اور غلبہ پر دلالت کرتی ہے اور یہ اس بات کی موجب ہے کہ اس کو الٰہ مانا جائے اور اس کی عبادت کی جائے، صرف اسی سے محبت کی جائے، اسی کی تعظیم کی جائے، اسی سے ڈرا جائے، اسی سے امید رکھی جائے اور اس کے محبوب اور پسندیدہ اعمال میں جدوجہد کی جائے۔ ﴿ وَالْفُلْکِ الَّتِیْ تَجْرِیْ فِی الْبَحْرِ﴾” اور ان کشتیوں میں جو سمندر میں چلتی ہیں“ اس آیت کریمہ میں (فُلْکِ) سے مراد جہاز اور کشتیاں وغیرہ ہیں جن کی صنعت اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کے دلوں میں الہام کی اور اللہ تعالیٰ نے ان کے لیے داخلی اور خارجی آلات تخلیق کیے اور ان کے استعمال پر انہیں قدرت عطا کی۔ پھر اس نے اس بحربے کراں اور ہواؤں کو ان کے لیے مسخر کردیا جو سمندروں میں اموال تجارت سمیت کشتیوں کو لیے پھرتی ہیں جن میں لوگوں کے لیے منفعت اور ان کی معاش کے انتظامات اور مصلحتیں ہیں۔ وہ کون ہے جس نے ان کشتیوں کی صنعت انہیں الہام کی اور ان کے استعمال پر انہیں قدرت عطا کی اور ان کے لیے وہ آلات پیدا کیے جن سے وہ کام لیتے ہیں؟ وہ کون ہے جس نے کشتیوں کے لیے بے پایاں سمندر کو مسخر کیا جس کے اندر یہ کشتیاں اللہ کے حکم اور اس کی تسخیر سے چلتی ہیں؟ اور وہ کون ہے جس نے ہواؤں کو مسخر کیا؟ وہ کون ہستی ہے جس نے بری اور بحری سفر کی سواریوں کے لیے آگ اور وہ معدنیات پیدا کیں جن کی مدد سے وہ سواریاں (فضاؤں اور سمندروں میں) چلتی اور ان کے مال و اسباب بھی اٹھائے پھرتی ہیں؟ کیا یہ تمام امور اتفاقاً حاصل ہوگئے یا یہ کمزور، عاجز مخلوق انہیں وجود میں لائی ہے۔ جو اپنی ماں کے پیٹ سے جب باہر آئی تو اسے علم تھا نہ قدرت؟ پھر اللہ تعالیٰ نے اسے قدرت عطا کی پھر اسے ہر اس چیز کی تعلیم دی جس کی تعلیم دینا وہ چاہتا تھا، یا ان تمام چیزوں کو مسخر کرنے والا ایک اللہ ہی ہے جو حکمت اور علم والا ہے جسے کوئی چیز عاجز نہیں کرسکتی اور کوئی چیز اس کے اختیار سے باہر نہیں۔ بلکہ تمام اشیاء اس کی ربوبیت کے سامنے سرنگوں، اس کی عظمت کے سامنے عاجز اور اس کے جبروت کے سامنے سرافگندہ ہیں اور نحیف و نزاربندے کی انتہا یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اسے ان اسباب میں سے ایک سبب بنایا ہے جن کے ذریعے سے یہ بڑے بڑے کام سر انجام پاتے ہیں، پس یہ چیز اللہ تعالیٰ کی اپنی مخلوق پر رحمت اور اس کی عنایت پر دلالت کرتی ہے اور یہ چیز اس بات کی موجب ہے کہ تمام تر محبت، خوف، امید، ہر قسم کی اطاعت، تذلل و انکسار اور تعظیم صرف اسی کی ذات کے لیے ہو۔ ﴿ وَمَآ اَنْزَلَ اللّٰہُ مِنَ السَّمَاۗءِ مِنْ مَّاۗءٍ﴾” اور اس میں جو اللہ نے آسمان سے پانی اتارا‘‘ اس سے مراد وہ بارش ہے جو بادل سے برستی ہے ﴿فَاَحْیَا بِہِ الْاَرْضَ بَعْدَ مَوْتِہَا ﴾” پس اس کے ذریعے سے اس نے زمین کو مردہ ہوجانے کے بعد زندہ کردیا“ پس زمین نے مختلف قسم کی خوراک اور نباتات ظاہر کیں جو مخلوق کی ضروریات زندگی میں شمار ہوتی ہیں، جن کے بغیر وہ زندہ نہیں رہ سکتی۔ کیا یہ اس ذات کی قدرت و اختیار کی دلیل نہیں جس نے یہ پانی برسایا اور اس کے ذریعے سے زمین سے مختلف چیزیں پیدا کیں؟ کیا یہ اپنے بندوں پر اس کی رحمت اور اس کا لطف و کرم اور اپنے بندوں کے مصالح کا انتظام نہیں؟ کیا یہ اس بات کی دلیل نہیں کہ بندے ہر لحاظ سے اس کے سخت محتاج ہیں؟ کیا یہ چیز واجب نہیں کرتی کہ ان کا معبود اور ان کا الٰہ صرف اللہ تعالیٰ ہی ہو؟ کیا یہ اس بات کی دلیل نہیں کہ اللہ تعالیٰ مردوں کو زندہ کرے گا اور ان کو ان کے اعمال کی جزا دے گا؟ ﴿ وَبَثَّ فِیْہَا﴾ ” اور پھیلائے اس میں“ یعنی زمین کے اندر ﴿ مِنْ کُلِّ دَاۗبَّۃٍ ۠﴾” ہر قسم کے جانور“ یعنی زمین کے چاروں طرف مختلف اقسام کے جانور پھیلائے، جو اس کی قدرت، عظمت، وحدانیت اور اس کے غلبے کی دلیل ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ان جانوروں کو انسانوں کے لیے مسخر کردیا جن سے وہ ہر پہلو سے فائدہ ا ٹھاتے ہیں۔ پس وہ ان میں سے بعض جانوروں کا گوشت کھاتے ہیں اور بعض جانوروں کا دودھ پیتے ہیں۔ بعض جانوروں پر سواری کرتے ہیں، بعض جانوران کے دیگر مصالح اور چوکیداری کے کام آتے ہیں۔ بعض جانوروں سے عبرت پکڑی جاتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے زمین میں ہرقسم کے جانور پھیلائے ہیں۔ وہی ان کے رزق کا انتظام کرتا ہے اور وہی ان کی خوراک کا کفیل ہے۔ ﴿وَمَا مِن دَابَّةٍ فِي الْأَرْضِ إِلَّا عَلَى اللَّـهِ رِزْقُهَا وَيَعْلَمُ مُسْتَقَرَّهَا وَمُسْتَوْدَعَهَا ۚ﴾ (ھود: 6؍11) ” زمین کے اندر پھرنے والا کوئی جانور نہیں مگر یہ کہ اللہ کے ذمے اس کا رزق ہے وہ اس کے ٹھکانے کو جانتا ہے اور جہاں اسے سونپا جاتا ہے۔ “ ﴿ وَّتَـصْرِیْفِ الرِّیٰحِ ﴾” اور ہواؤں کے پھیرنے میں“ یعنی ٹھنڈی، گرم، شمالاً جنوباً اور شرقاً غرباً اور ان کے درمیان ہواؤں کا چلنا، کبھی تو یہ ہوائیں بادل اٹھاتی ہیں کبھی یہ بادلوں کو اکٹھا کرتی ہیں، کبھی یہ بادلوں کو بار دار کرتی ہیں، کبھی یہ بادل برساتی ہیں، کبھی یہ بادلوں کو پھاڑ کر انہیں تتر بتر کرتی ہیں، کبھی اس کے ضرر کو زائل کرتی ہیں، کبھی یہ ہوائیں اللہ تعالیٰ کی رحمت ہوتی ہیں اور کبھی ان ہواؤں کو عذاب کے ساتھ بھیجا جاتا ہے۔ کون ہے وہ جو ان ہواؤں کو اس طرح پھیرتا ہے؟ کون ہے جس نے ان ہواؤں میں بندوں کے لیے مختلف منافع ودیعت کیے ہیں جن سے وہ بے نیاز نہیں ہوسکتے؟ اور ان ہواؤں کو مسخر کردیا جن میں تمام جاندار اشیاء زندہ رہ سکیں اور بدنوں، درختوں، غلہ جات اور نباتات کی اصلاح ہو؟ یہ سب کچھ کرنے والا صرف وہ اللہ ہے جو غالب، حکیم اور نہایت مہربان ہے، اپنے بندوں پر لطف و کرم کرنے والا ہے، جو اس بات کا مستحق ہے کہ اس کے سامنے تذلل اور عاجزی کا اظہار کیا جائے، اسی سے محبت، اسی کی عبادت اور اسی کی طرف رجوع کیا جائے۔ آسمان اور زمین کے درمیان بادل اپنے ہلکے اور لطیف ہونے کے باوجود بہت زیادہ پانی کو اٹھائے پھرتا ہے، پھر اللہ تعالیٰ جہاں چاہتا ہے اس بادل کو لے جاتا ہے پھر وہ اس پانی کے ذریعے سے زمین اور بندوں کو زندگی عطا کرتا اور ٹیلوں اور ہموار زمین کو سیراب کرتا ہے اور مخلوق پر اسی وقت بارش برساتا ہے جس وقت اس کو ضرورت ہوتی ہے۔ جب بارش کی کثرت انہیں نقصان پہنچانے لگتی ہے تو وہ اسے روک لیتا ہے۔ وہ بندوں پر لطف و کرم کے طور پر بارش برساتا ہے اور پانی رحمت اور شفقت سے بارش کو ان سے روک لیتا ہے۔ اس کا غلبہ کتنا بڑا، اس کی بھلائی کتنی عظیم اور اس کا احسان کتنا لطیف ہے! کیا یہ بندوں کے حق میں برائی نہیں کہ وہ اللہ تعالیٰ کے رزق سے فائدہ ا ٹھاتے ہیں، اس کے احسان کے ماتحت زندگی بسر کرتے ہیں۔ پھر وہ ان تمام چیزوں سے اللہ تعالیٰ کی ناراضی اور اس کی معصیت پر مدد لیتے ہیں؟ کیا یہ اللہ تعالیٰ کے حلم و صبر، عفو و درگزر اور اس کے عظیم لطف و کرم کی دلیل نہیں؟ پس اول و آخر اور ظاہر و باطن اللہ تعالیٰ ہی ہر قسم کی تعریف کا مستحق ہے۔ حاصل کلام یہ ہے کہ عقل مند شخص جب بھی ان مخلوقات میں غور و فکر اور انوکھی چیزوں میں سوچ بچار کرے گا اور اللہ کی کاریگری میں اور اس میں جو اس نے احسان اور حکمت کے لطائف رکھے ہیں، ان میں کتنا زیادہ غور و فکر کرے گا۔ تو اسے معلوم ہوگا کہ یہ کائنات اس نے حق کے لیے اور حق کے ساتھ تخلیق کی ہے، نیز یہ کائنات اللہ تعالیٰ کی ذات، وحدانیت اور یوم آخرت کے نشانات اور دلائل ہیں، جس کے بارے میں اس نے اور اس کے رسولوں نے خبر دی ہے اور یہ کائنات اللہ تعالیٰ کے سامنے مسخر ہے، وہ اپنے تدبیر اور تصرف کرنے والے کے سامنے کوئی تدبیر اور نافرمانی نہیں کرسکتی۔ پس تجھے بھی معلوم ہوجائے گا کہ تمام عالم علوی اور عالم سفلی اسی کے محتاج اور اسی پر بھروسہ کرتے ہیں اور وہ بالذات تمام کائنات سے بے نیاز اور مستغنی ہے پس اس کے سوا کوئی الٰہ نہیں اور اس کے سوا کوئی رب نہیں۔