ذَٰلِكَ مِنْ أَنبَاءِ الْغَيْبِ نُوحِيهِ إِلَيْكَ ۖ وَمَا كُنتَ لَدَيْهِمْ إِذْ أَجْمَعُوا أَمْرَهُمْ وَهُمْ يَمْكُرُونَ
(اے محمد ﷺ) یہ قصہ غیب کی خبروں میں سے ہے جسے ہم تیری طرف بذریعہ وحی پہنچاتے ہیں اور تو تو ان کے پاس نہ تھا جب وہ اپنے مشورہ پر متفق ہوئے اور وہ مکر کر رہے تھے۔
اللہ تبارک وتعالیٰ نے رسول مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر یہ قصہ بیان کرنے کے بعد فرمایا : ﴿ذَٰلِكَ﴾ یعنی یہ خبر جس سے ہم نے آپ کو آگاہ کیا ہے۔ ﴿مِنْ أَنبَاءِ الْغَيْبِ نُوحِيهِ إِلَيْكَ﴾ ” غیب کی خبریں، جو ہم آپ کی طرف وحی کرتے ہیں“ اور اگر ہم آپ کی طرف وحی نہ کرتے تو اس جلیل القدر واقعہ کی خبر آپ تک نہ پہنچ سکتی۔ ﴿ وَمَا كُنتَ لَدَيْهِمْ﴾ ” اور آپ ان کے پاس موجود نہ تھے“ ﴿ إِذْ أَجْمَعُوا أَمْرَهُمْ﴾ ” جب وہ اتفاق کر رہے تھے اپنے کام پر“ یعنی یوسف علیہ السلام کے بھائی فریب پر اتفاق کر رہے تھے۔ ﴿وَهُمْ يَمْكُرُونَ﴾ ” اور وہ چال چل رہے تھے۔“ جب کہ ان کے اور ان کے باپ کے درمیان جدائی ڈالنے کے لئے اس طرح سازش کر رہے تھے کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کو اطلاع نہ تھی اور نہ کسی کے لئے یہ ممکن ہی تھا کہ اصل واقعہ معلوم کرسکتا جب تک کہ اللہ تعالیٰ اصل واقعہ سے آگاہ نہ کرے۔ جس طرح اللہ تعالیٰ نے جب موسیٰ علیہ السلام کا قصہ بیان کرنے کے بعد وہ حالات بیان فرمائے، جن کا علم، اللہ کی وحی کے بغیر مخلوق کو حاصل نہیں ہوسکتا، تو وہاں فرمایا : ﴿وَمَا كُنتَ بِجَانِبِ الْغَرْبِيِّ إِذْ قَضَيْنَا إِلَىٰ مُوسَى الْأَمْرَ وَمَا كُنتَ مِنَ الشَّاهِدِينَ ﴾ (القصص:28؍44)” اور جب ہم نے موسیٰ کی طرف وحی کی تو آپ طور کے غربی جانب نہ تھے اور نہ آپ اس واقعہ کا مشاہدہ کرنے والے تھے۔“ اور یہ اس بات کی سب سے بڑی دلیل ہے کہ آپ جو کچھ لے کر آئے ہیں وہ حق ہے۔