سورة یوسف - آیت 100

وَرَفَعَ أَبَوَيْهِ عَلَى الْعَرْشِ وَخَرُّوا لَهُ سُجَّدًا ۖ وَقَالَ يَا أَبَتِ هَٰذَا تَأْوِيلُ رُؤْيَايَ مِن قَبْلُ قَدْ جَعَلَهَا رَبِّي حَقًّا ۖ وَقَدْ أَحْسَنَ بِي إِذْ أَخْرَجَنِي مِنَ السِّجْنِ وَجَاءَ بِكُم مِّنَ الْبَدْوِ مِن بَعْدِ أَن نَّزَغَ الشَّيْطَانُ بَيْنِي وَبَيْنَ إِخْوَتِي ۚ إِنَّ رَبِّي لَطِيفٌ لِّمَا يَشَاءُ ۚ إِنَّهُ هُوَ الْعَلِيمُ الْحَكِيمُ

ترجمہ سراج البیان - مستفاد از ترجمتین شاہ عبدالقادر دھلوی/شاہ رفیع الدین دھلوی

اور اپنے والدین کو تخت پر چڑہایا اور سب اس کے آگے سجدہ میں گر پڑے تو اس نے کہا ، اے باپ یہ میرے پہلے خواب کی تعبیر ہے ، میرے رب نے اسے سچ کیا اور اس نے مجھ پر احسان کیا ۔ جب مجھے قید خانے سے نکالا ۔ (ف ٢) اور تمہیں جنگل سے یہاں لے آیا ۔ اس کے بعد کہ شیطان نے مجھ میں اور میرے بھائیوں میں جھگڑا ڈال دیا تھا ۔ بیشک میرا رب تدبیر کرنے والا ہے جو چاہے بیشک وہی جاننے والا اور حکمت والا ہے۔

تفسیر السعدی - عبدالرحمٰن بن ناصر السعدی

﴿وَرَفَعَ أَبَوَيْهِ عَلَى الْعَرْشِ﴾ ” اور اونچا بٹھایا اپنے ماں باپ کو تخت پر“ یعنی انہیں شاہی تخت اور مقام عزت پر بٹھایا ﴿وَخَرُّوا لَهُ سُجَّدًا﴾ ” اور سب اس کے آگے سجدے میں گر پڑے۔“ یعنی یوسف علیہ السلام کے والدین اور ان کے بھائی ان کی تعظیم اور عزت و اکرام کے لئے ان کے سامنے سجدے میں گر گئے۔ ﴿وَقَالَ﴾ جب یوسف علیہ السلام نے انہیں اس حالت میں دیکھا کہ وہ ان کے سامنے سجدہ ریز ہیں، تو کہنے لگے : ﴿يَا أَبَتِ هَـٰذَا تَأْوِيلُ رُؤْيَايَ مِن قَبْلُ﴾ ” ابا جان ! یہ ہے تعبیر میرے خواب کی جو اس سے پہلے دیکھا تھا“ یعنی جب یوسف علیہ السلام نے خواب میں دیکھا تھا کہ گیارہ ستارے، سورج اور چاند انہیں سجدہ کر رہے ہیں۔ یہ تھی اس خواب کی تعبیر، جو اس مقام پر پہنچ کر پوری ہوئی۔ ﴿ قَدْ جَعَلَهَا رَبِّي حَقًّا﴾ ” میرے رب نے اسے سچ کردیا۔“ یعنی میرے رب نے اس خواب کو حقیقت بنا دکھایا اور اسے خواب پریشان نہ بنایا۔ ﴿ وَقَدْ أَحْسَنَ بِي﴾ ” اور اس نے مجھ پر بڑا احسان کیا۔“ ﴿إِذْ أَخْرَجَنِي مِنَ السِّجْنِ وَجَاءَ بِكُم مِّنَ الْبَدْوِ﴾ ” جب اس نے مجھے قید خانے سے نکالا اور تم کو گاؤں سے (یہاں) لے آیا“ یہ یوسف علیہ السلام کی مہربانی اور حسن تخاطب ہے کہ انہوں نے اپنے بھائیوں کے لئے اتمام عفو کی خاطر اپنی حالت قید کا تو ذکر کیا مگر اندھے کنوئیں میں ان پر جو کچھ گزری، اس کا ذکر نہیں کیا اور نہ انہوں نے اپنے بھائیوں کے قصور کا ذکر کیا نیز ان کو صحرا سے مصر لانے میں اللہ تعالیٰ کے احسان کا ذکر کیا۔ یوسف علیہ السلام نے یہ پیرا یہ بھی اختیار نہیں کیا کہ ” تمہیں بھوک اور بد حالی سے نکال کر یہاں لایا“ نہ یہ کہا’’اس نے تم پر احسان کیا“ بلکہ کہا ” اس نے مجھ پر احسان فرمایا“ اور اللہ تعالیٰ کے احسان کو اپنی طرف لوٹایا۔ نہایت بابرکت ہے وہ ذات جو اپنے بندوں میں سے جسے چاہتی ہے اپنی رحمت کے لئے مختصر کرلیتی ہے۔ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کی طرف سے بے پایاں رحمت سے نوازتا ہے وہ بہت زیادہ نوازشات کرنے والا ہے۔ ﴿مِن بَعْدِ أَن نَّزَغَ الشَّيْطَانُ بَيْنِي وَبَيْنَ إِخْوَتِي﴾ ” بعد اس کے کہ شیطان نے میرے اور میرے بھائیوں کے درمیان جھگڑا ڈال دیا“ اور یہ نہیں کہا : (نَزَغَ الشَّيْطَانُ إِخْوَتِي) ” شیطان نے میرے بھائیوں کو بہکا دیا“ بلکہ پیرا یہ استعمال کیا گیا گویا گناہ اور جہالت دونوں طرف سے صادر ہوئی۔۔۔ تمام ستائش اللہ تعالیٰ کے لئے ہے جس نے شیطان کو رسوا کرکے دھتکار دیا اور اس انتہائی تکلیف دہ جدائی کے بعد اس نے ہمیں پھر اکٹھا کردیا۔ ﴿إِنَّ رَبِّي لَطِيفٌ لِّمَا يَشَاءُ﴾ ” بے شک میرا رب تدبیر سے کرتا ہے جو چاہتا ہے“ اللہ تعالیٰ اپنے بندے کو اپنے کرم اور احسان سے اس طرح نوازتا ہے کہ اسے شعور تک نہیں ہوتا اور بعض ناپسندیدہ امور کے ذریعے سے بلند ترین منازل پر پہنچا دیتا ہے۔ ﴿إِنَّهُ هُوَ الْعَلِيمُ الْحَكِيمُ﴾ ” بے شک وہ جاننے والا“ یعنی وہ جو تمام معاملات کے ظاہر و باطن کو جانتا ہے اور وہ بندوں کے ضمیر میں نہاں رازوں کو بھی جانتا ہے۔ ﴿الْحَكِيمُ﴾ وہ حکمت والا ہے اور تمام اشیاء کو ان کے لائق مقام پر رکھتا ہے اور تمام امور کو ان کے اوقات مقرر پر وقوع پذیر کرتا ہے۔