فَلَمَّا أَن جَاءَ الْبَشِيرُ أَلْقَاهُ عَلَىٰ وَجْهِهِ فَارْتَدَّ بَصِيرًا ۖ قَالَ أَلَمْ أَقُل لَّكُمْ إِنِّي أَعْلَمُ مِنَ اللَّهِ مَا لَا تَعْلَمُونَ
پھر جب بشارت دینے والا آ گیا تو اس نے کرتہ اس کے منہ پر ڈالا سو وہ بینا ہوگیا ، کہا کیا میں نے تم سے نہ کہا تھا کہ میں خدا سے وہ کچھ جانتا ہوں جو تم نہیں جانتے
﴿فَلَمَّا أَن جَاءَ الْبَشِيرُ﴾ ” پس جب خوشخبری دینے والا آپہنچا“ یعنی جب ایلچی حضرت یوسف علیہ السلام، ان کے بھائیوں اور ان کے باپ کے اجتماع کی خوشخبری لے کر آیا ﴿أَلْقَاهُ﴾ ” تو ڈال دیا اس کو“ یعنی قمیص کو ﴿عَلَىٰ وَجْهِهِ فَارْتَدَّ بَصِيرًا﴾ ” ان کے چہرے پر، جس سے وہ دوبارہ دیکھنے والے ہوگئے“ یعنی یعقوب علیہ السلام اپنی پہلی سی بصارت والی حالت میں آگئے حالانکہ غم و اندوہ کی وجہ سے ان کی آنکھیں سفید ہوگئی تھیں۔ یعقوب علیہ السلام نے ان لوگوں سے۔۔۔ جو وہاں موجود تھے اور جو ان کی رائے کو جھٹلاتے رہے تھے اور ان پر تعجب کر رہے تھے۔۔۔ اللہ تعالیٰ کی نعمت پر خوش ہو کر فاتحانہ انداز میں کہا : ﴿أَلَمْ أَقُل لَّكُمْ إِنِّي أَعْلَمُ مِنَ اللَّـهِ مَا لَا تَعْلَمُونَ﴾ ” کیا میں نے تمہیں نہیں کہا تھا کہ میں اللہ سے وہ جانتا ہوں جو تم نہیں جانتے“ کیونکہ میں یوسف علیہ السلام کے ملنے کی امید رکھتا تھا اور حزن و غم کے ختم ہونے کا منتظر تھا۔