سورة البقرة - آیت 9

يُخَادِعُونَ اللَّهَ وَالَّذِينَ آمَنُوا وَمَا يَخْدَعُونَ إِلَّا أَنفُسَهُمْ وَمَا يَشْعُرُونَ

ترجمہ سراج البیان - مستفاد از ترجمتین شاہ عبدالقادر دھلوی/شاہ رفیع الدین دھلوی

وہ خدا اور ایمان لانے والوں کو فریب دیتے ہیں حالانکہ کسی کو فریب نہیں دیتے تھے مگر اپنے آپ کو اور نہیں سمجھتے ۔

تفسیر السعدی - عبدالرحمٰن بن ناصر السعدی

(اَلْمُخَادَعَةُ) ” دھوکہ“ یہ ہے کہ دھوکہ دینے والا شخص جس کو دھوکہ دیتا ہے اس کے سامنے زبان سے جو کچھ ظاہر کرتا ہے اس کے خلاف اپنے دل م یں چھپاتا ہے تاکہ اس شخص سے اپنا مقصد حاصل کرسکے جسے وہ دھوکہ دے رہا ہے۔ پس منافقین نے اللہ تعالیٰ اور اہل ایمان کے ساتھ اسی رویہ کو اختیار کیا تو یہ دھوکہ انہی کی طرف لوٹ آیا (یعنی اس کا سارا وبال انہی پر پڑا) اور یہ عجائبات میں سے ہے، کیونکہ دھوکہ دینے والے کا دھوکہ یا تو نتیجہ خیز ہوتا ہے او اسے اپنا مقصد حاصل ہوجاتا ہے یا وہ محفوظ رہتا ہے اور اس کا نتیجہ نہ تو اس کے حق میں ہوتا ہے اور نہ اس کے خلاف مگر ان منافقین کا دھوکہ خود ان کی طرف پلٹ گیا۔ گویا کہ وہ مکر اور چالبازیاں جو دوسروں کو نقصان پہنچانے کے لئے کر رہے تھے وہ درحقیقت اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈالنے کے لئے کر رہے تھے۔ اس لئے کہ ان کے دھوکے سے اللہ تعالیٰ کو کوئی نقصان پہنچ سکتا ہے نہ اہل ایمان کو۔ پس منافقین کے ایمان ظاہر کرنے سے اہل ایمان کو کوئی نقصان نہیں پہنچتا، اظہار ایمان سے انہوں نے اپنے جان و مال کو محفوظ کرلیا اور ان کا مکرو فریب ان کے سینوں میں رہ گیا اس نفاق کی وجہ سے دنیا میں ان کو رسوائی ملی اور اہل ایمان کو قوت اور فتح و نصرت سے سرفراز ہونے کی وجہ سے وہ حزن و غم کی دائمی آگ میں سلگنے لگے۔ پھر آخرت میں ان کے جھوٹ اور ان کے کفر و فجور کے سبب سے ان کے لئے درد ناک عذاب ہوگا، جب کہ ان کا حال یہ ہے کہ وہ اپنی حماقت اور جہالت کی وجہ سے اس کے شعور سے بے بہرہ ہیں۔