سورة یوسف - آیت 51

قَالَ مَا خَطْبُكُنَّ إِذْ رَاوَدتُّنَّ يُوسُفَ عَن نَّفْسِهِ ۚ قُلْنَ حَاشَ لِلَّهِ مَا عَلِمْنَا عَلَيْهِ مِن سُوءٍ ۚ قَالَتِ امْرَأَتُ الْعَزِيزِ الْآنَ حَصْحَصَ الْحَقُّ أَنَا رَاوَدتُّهُ عَن نَّفْسِهِ وَإِنَّهُ لَمِنَ الصَّادِقِينَ

ترجمہ سراج البیان - مستفاد از ترجمتین شاہ عبدالقادر دھلوی/شاہ رفیع الدین دھلوی

بادشاہ نے کہا ، اے عورتو ! تمہارا کیا حال تھا ، جب تم نے یوسف (علیہ السلام) کو پھسلایا تھا ؟ بولیں ، حاشاللہ ، ہمیں اس کی کوئی برائی معلوم نہیں ، عزیز کی عورت نے کہا اب حق ظاہر ہوگیا ، میں نے خود اس کے نفس کو پھسلایا تھا ، اور وہ سچوں میں ہے ۔(ف ١)

تفسیر السعدی - عبدالرحمٰن بن ناصر السعدی

بادشاہ نے ان عورتوں کو بلایا اور ان سے پوچھا ﴿مَا خَطْبُكُنَّ ﴾ ” تمہارا کیا معاملہ ہے؟“ ﴿إِذْ رَاوَدتُّنَّ يُوسُفَ عَن نَّفْسِهِ ﴾’’جب تم نے یوسف کو اس کے نفس سے پھسلانا چاہا تھا؟“ کیا تم نے یوسف میں کوئی برائی دیکھی ؟ ان عورتوں نے یوسف علیہ السلام کی برأت کا اقرار کیا اور کہنے لگیں : ﴿قُلْنَ حَاشَ لِلَّـهِ مَا عَلِمْنَا عَلَيْهِ مِن سُوءٍ ۚ ﴾ ” حاشا للہ ہم نے اس میں کوئی برائی معلوم نہیں کی۔“ یعنی تھوڑا یا بہت ہم نے اس میں کوئی عیب نہیں دیکھا۔ تب وہ سبب زائل ہوگیا جس پر تہمت کا دار و مدار تھا۔ اب کوئی سبب باقی نہ بچا سوائے اس الزام کے جو عزیز مصر کی بیوی نے لگایا تھا۔ ﴿قَالَتِ امْرَأَتُ الْعَزِيزِ الْآنَ حَصْحَصَ الْحَقُّ ﴾ ” عزیز کی بیوی نے کہا، اب حق واضح ہوگیا ہے“ یعنی حق واضح ہوگیا ہے جب کہ ہم نے یوسف کو برائی اور تہمت میں ملوث کرنے کی بھرپور کوشش کی تھی جو اس کو محبوب کرنے کا باعث بنا۔ ﴿أَنَا رَاوَدتُّهُ عَن نَّفْسِهِ وَإِنَّهُ لَمِنَ الصَّادِقِينَ ﴾ ” میں نے ہی اس کو اس کے جی سے پھسلانے کی کوشش کی تھی اور وہ یقیناً سچا ہے“ یعنی یوسف علیہ السلام اپنے اقوال اور اپنی برأت کے دعوے میں سچے ہیں۔