سورة یوسف - آیت 33

قَالَ رَبِّ السِّجْنُ أَحَبُّ إِلَيَّ مِمَّا يَدْعُونَنِي إِلَيْهِ ۖ وَإِلَّا تَصْرِفْ عَنِّي كَيْدَهُنَّ أَصْبُ إِلَيْهِنَّ وَأَكُن مِّنَ الْجَاهِلِينَ

ترجمہ سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

بولا اے رب جس بات کی طرف مجھے یہ عورتیں بلاتی ہیں اس سے قید خانہ مجھے زیادہ پسند ہے ، اور اگر تو ان کا فریب مجھ سے دفع نہ کرے تو میں ان کی طرف مائل ہوجاؤں گا اور جاہلوں میں ہوں گا ،

تفسیر السعدی - عبدالرحمٰن بن ناصر السعدی

تب یوسف علیہ السلام نے اپنے رب سے پناہ مانگی اور ان عورتوں کے مکر و فریب کے مقابلے میں اپنے رب سے مدد کے طلب گار ہئے ﴿قَالَ رَبِّ السِّجْنُ أَحَبُّ إِلَيَّ مِمَّا يَدْعُونَنِي إِلَيْهِ ﴾ ” انہوں نے کہا، اے رب ! مجھے قید اس سے زیادہ پسند ہے جس طرح یہ مجھے بلا رہی ہیں“ یہ چیز دلالت کرتی ہے کہ ان عورتوں نے یوسف علیہ السلام کو مشورہ دیا تھا کہ وہ اپنی مالکہ کا حکم مانیں اور ان عورتوں نے یوسف علیہ السلام کو فریب سے پھسلانا شروع کردیا تھا۔ اس لئے یوسف علیہ السلام نے اس لذت کے مقابلے میں، جو اخروی عذاب کی موجب ہے، قید خانے اور دنیاوی عذاب کو پسند کیا۔ ﴿وَإِلَّا تَصْرِفْ عَنِّي كَيْدَهُنَّ أَصْبُ إِلَيْهِنَّ﴾ ” اور اگر تو نے ان عورتوں کی چالوں اور مکر و فریب کو مجھ سے دور نہ کیا تو میں ان کی طرف مائل ہو کر ان کے دام میں پھنس جاؤں گا“ کیونکہ میں تو ایک عاجز اور کمزور بندہ ہوں ﴿وَأَكُن مِّنَ الْجَاهِلِينَ﴾ ” اور میں جاہلوں سے ہوجاؤں گا“ کیونکہ یہ سب جہالت کا کام ہے، کیونکہ جاہل ختم ہوجانے والی قلیل لذت کو جنت میں حاصل ہونے والی دائمی لذات اور انواع و اقسام کی شہوات پر ترجیح دیتا ہے اور جو دنیا کی اس لذت کو جنت کی لذتوں پر ترجیح دیتا ہے اس سے بڑھ کر جاہل کون ہے؟ علم و عقل ہمیشہ بڑی مصلحت اور دائمی لذت کو مقدم رکھنے اور ان امور کو تج دینے کی دعوت دیتے ہیں جن کا انجام قابل ستائش ہوتا ہے۔