قَالَ هِيَ رَاوَدَتْنِي عَن نَّفْسِي ۚ وَشَهِدَ شَاهِدٌ مِّنْ أَهْلِهَا إِن كَانَ قَمِيصُهُ قُدَّ مِن قُبُلٍ فَصَدَقَتْ وَهُوَ مِنَ الْكَاذِبِينَ
یوسف (علیہ السلام) بولا ، اسی نے مجھ سے یہ خواہش کی تھی ‘ کہ میں اپنے نفس کو قابو میں نہ رکھوں ‘ اور عورت کے لوگوں میں سے ایک گواہ نے یوں گواہی دی کہ اگر اس کا کرتہ آگے سے پٹھا ہے تو عورت سچی اور وہ جھوٹا ہے ۔
یوسف علیہ السلام نے اس الزام سے، جو اس عورت نے لگایا تھا، اپنے آپ کو بری کرتے ہوئے کہا﴿ هِيَ رَاوَدَتْنِي عَن نَّفْسِي ﴾ ’’اسی نے مجھ کو مائل کرنا چاہا تھا‘‘ اس صورت حال میں دونوں کی صداقت کا احتمال تھا مگر یہ معلوم نہیں کیا جاسکتا تھا کہ دونوں میں سے کون سچا ہے؟ اللہ تبارک و تعالیٰ نے حق اور صداقت کی کچھ علامات اور نشانیاں مقرر فرمائی ہیں۔ جو حق کی طرف راہ نمائی کرتی ہیں جنہیں بسا اوقات بندے جانتے ہیں اور بسا اوقات نہیں جانتے، چنانچہ اس قضیہ میں اللہ تعالیٰ نے سچے کی پہچان سے نوازا، تاکہ اس کے نبی اور چنیدہ بندے، جناب یوسف علیہ السلام کی براءت کا اظہار ہو۔ اللہ تعالیٰ نے اس عورت کے گھر والوں میں سے ایک شاہد کو کھڑا کردیا اور اس نے قرینے کی گواہی دی کہ جس کے پاس یہ قرینہ موجود ہوگا وہی سچا ہے۔ اس گواہ نے کہا﴿ اِنْ کَانَ قَمِیْصُہٗ قُدَّ مِنْ قُبُلٍ فَصَدَقَتْ وَہُوَ مِنَ الْکٰذِبِیْنَ ﴾ ’’اگر اس کا کرتہ آگے سے پھٹا ہوا ہے تو وہ عورت سچی ہے اور وہ جھوٹا ہے‘‘ کیونکہ یہ صورت حال دلالت کرتی ہے کہ یوسف علیہ السلام ہی بڑھ کر اس عورت پر ہاتھ ڈالنے والے، اس کو پھسلانے والے اور زور آزمائی کرنے والے تھے اور وہ عورت تو بس اپنی مدافعت کر رہی تھی اور اس نے اپنی مدافعت کی حالت میں اس جانب سے یوسف کا کرتہ پھاڑ ڈالا۔