سورة یوسف - آیت 11

قَالُوا يَا أَبَانَا مَا لَكَ لَا تَأْمَنَّا عَلَىٰ يُوسُفَ وَإِنَّا لَهُ لَنَاصِحُونَ

ترجمہ سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

بولے ، اے باپ ! تیرا کیا حال ہے کہ یوسف (علیہ السلام) کی نسبت تو ہمارا اعتبار نہیں کرتا ، اور ہم اس کے خیر خواہ ہیں ۔ (ف ١) ۔

تفسیر السعدی - عبدالرحمٰن بن ناصر السعدی

یعنی جناب یوسف علیہ السلام کے بھائیوں نے اپنے مقصد کے حصول کے لیے اپنے باپ سے کہا ﴿یٰٓاَبَانَا مَالَکَ لَا تَاْمَنَّا عَلٰی یُوْسُفَ﴾اباجان کیا وجہ ہے کہ آپ یوسف کے بارے میں ہمارا اعتبار نہیں کرتے۔ یعنی کون سی چیز بغیر کسی سبب اور موجب کے یوسف کے بارے میں آپ کو ہم سے خائف کر رہی ہے اور حال یہ ہے کہ﴿ وَاِنَّا لَہٗ لَنٰصِحُوْنَ﴾’’ہم اس کے خیر خواہ ہیں۔‘‘ یعنی ہم اس پر شفقت رکھتے ہیں اور ہم اس کے لیے وہی کچھ چاہتے ہیں جو اپنے لیے چاہتے ہیں۔ برادران یوسف کا یہ قول دلالت کرتا ہے کہ یعقوب علیہ السلام حضرت یوسف علیہ السلام کو ان کے بھائیوں کے ساتھ جنگل وغیرہ کی طرف نہیں جانے دیا کرتے تھے۔ جب انہوں نے اپنے آپ سے اس تہمت کو رفع کردیا جو یوسف علیہ السلام کو ان کے ساتھ بھیجنے سے مانع تھی تو انہوں نے یوسف علیہ السلام کے بارے میں اس مصلحت کا ذکر کیا جسے یعقوب علیہ السلام پسند کرتے تھے جو اس امر کا تقاضا کرتی تھی کہ وہ یوسف علیہ السلام کو ان کے ساتھ بھیج دیں۔