سورة ھود - آیت 116

فَلَوْلَا كَانَ مِنَ الْقُرُونِ مِن قَبْلِكُمْ أُولُو بَقِيَّةٍ يَنْهَوْنَ عَنِ الْفَسَادِ فِي الْأَرْضِ إِلَّا قَلِيلًا مِّمَّنْ أَنجَيْنَا مِنْهُمْ ۗ وَاتَّبَعَ الَّذِينَ ظَلَمُوا مَا أُتْرِفُوا فِيهِ وَكَانُوا مُجْرِمِينَ

ترجمہ سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

تو جو امتیں پہلے ہو گزری ہیں ، ان میں ایسے صاحب شعور کیوں نہ ہوئے کہ زمین میں فساد کرنے سے لوگوں کو منع کرتے ، مگر تھوڑے ہوئے جنہیں ہم نے ان میں سے بچا لیا ، اور ظالموں نے اسی راہ کی پیروی کی جس میں آسودگی پائی اور وہ گنہگار تھے ۔

تفسیر السعدی - عبدالرحمٰن بن ناصر السعدی

جب اللہ تعالیٰ نے گزشتہ امتوں کی ہلاکت کا ذکر فرمایا جنہوں نے اپنے رسولوں کو جھٹلایا تھا، نیز یہ کہ ان میں سے اکثر وہ لوگ تھے جنہوں نے کتب سماویہ کے ماننے والوں سے انحراف کیا، حتی کہ ان لوگوں نے بھی جو کتب الٰہیہ کو ماننے والے تھے اور یہ چیز اس بات کا فیصلہ کرتی ہے کہ گزشتہ ادیان انعدام و اضمحلال کا شکار ہوگئے تو اب ذکر فرمایا کہ گزشتہ قوموں میں ایسے اصحاب خیر کیوں نہ ہوئے جو لوگوں کو ہدایت کی طرف بلاتے رہتے، فساد اور ہلاکت سے روکتے رہتے، تو ان سے کچھ فائدہ حاصل ہوتا جب تک ان کے ادیان باقی رہتے۔ مگر ایسے لوگ بہت ہی قلیل تھے۔ اس سارے معاملے کی غرض و غایت یہ ہے کہ گزشتہ امتوں کے جو تھوڑے لوگوں نے نجات پائی تو انہوں نے انبیاء و مرسلین کی اتباع اور اقامت دین کی وجہ سے نجات پائی نیز یہ کہ وہ اللہ تعالیٰ کی حجت بن گئے جس کو اس نے ان کے ہاتھوں پر جاری کیا، تاکہ جو ہلاک ہو تو دلیل کی بنا پر ہلاک ہو اور زندہ رہے تو دلیل ہی سے زندہ رہے۔ ﴿وَاتَّبَعَ الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا مَآ اُتْرِفُوْا فِیْہِ ﴾’’اور پیچھے پڑے رہے ظالم اسی چیز کے جس میں ان کو عیش ملا۔‘‘ یعنی وہ جن نعمتوں اور آسائشوں سے متمتع ہو رہے تھے انہی کے پیچھے پڑے رہے اور ان چیزوں کے بدلے انہوں نے کچھ اور نہیں چاہا۔﴿ وَکَانُوْا مُجْرِمِیْنَ﴾ ’’اور تھے وہ گناہ گار۔‘‘ یعنی ان نعمتوں اور آسائشوں کے پیچھے پڑ کر انہوں نے ظلم کا ارتکاب کیا، لہٰذا وہ عتاب کے مستحق ٹھہرے اور عذاب نے ان کی جڑ کاٹ کر رکھ دی۔ اس آیت کریمہ میں اس امت کو ترغیب دی گئی ہے کہ ان کے اندر ایسے ہوش مند مصلحین ہونے چاہئیں جو ان امور کی اصلاح کریں جن کو لوگوں نے فاسد کردیا ہے، جو اللہ کے دین کو قائم کرنے والے ہوں، بھٹکے ہوؤں کو ہدایت کی طرف بلاتے رہیں۔ اگر اس راہ میں تکلیفیں آئیں تو اس پر صبر کرتے رہیں اور وہ گمراہی کی تاریکیوں میں لوگوں کو بصیرت کی روشنی دکھاتے رہیں۔ یہ بندہ مومن کا بلند ترین حال ہے جس کی طرف رغبت کرنے والے راغب ہوتے ہیں اور اسی حال کو اختیار کرنے والا مرتبہ امامت پر فائز ہوتا ہے، کیونکہ اس کا عمل خالص رب العالمین کے لیے ہے۔