سورة ھود - آیت 109

فَلَا تَكُ فِي مِرْيَةٍ مِّمَّا يَعْبُدُ هَٰؤُلَاءِ ۚ مَا يَعْبُدُونَ إِلَّا كَمَا يَعْبُدُ آبَاؤُهُم مِّن قَبْلُ ۚ وَإِنَّا لَمُوَفُّوهُمْ نَصِيبَهُمْ غَيْرَ مَنقُوصٍ

ترجمہ سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

تو (اے محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم) ان کی نسبت جن کو یہ لوگ پوجتے ہیں شک میں نہ رہ جیسے پہلے انکے باپ دادا پوجتے تھے ، ویسے یہ بھی پوجتے ہیں ‘ اور ہم ان کا حصہ بغیر گھٹائے ان کو پورا دیں گے ۔

تفسیر السعدی - عبدالرحمٰن بن ناصر السعدی

اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے رسول محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم سے خطاب کر کے فرماتا ہے: ﴿فَلَا تَکُ فِیْ مِرْیَۃٍ مِّمَّا یَعْبُدُ ہٰٓؤُلَاۗءِ﴾ ’’آپ ان معبودان باطل کی طرف سے کسی شک میں نہ رہیں جن کی یہ مشرکین عبادت کرتے ہیں‘‘ یعنی آپ کو ان کے حال کے بارے میں کوئی شک نہ رہے وہ جس راہ پر چل رہے ہیں وہ باطل ہے اور ان کے پاس کوئی شرعی اور عقلی دلیل نہیں ہے۔ ان کی دلیل اور شبہ تو بس یہ ہے کہ وہ ﴿مَا یَعْبُدُوْنَ اِلَّا کَمَا یَعْبُدُ اٰبَاۗؤُہُمْ مِّنْ قَبْلُ﴾ ’’یہ انہی کی عبادت کرتے ہیں جن کی عبادت اس سے قبل ان کے باپ دادا کرتے تھے‘‘ اور یہ واضح طور پر معلوم ہے کہ ان کے آباء و اجداد کا ان باطل معبودوں کی عبادت کرنا، دلیل ہونا تو کجا یہ تو شبہ کے زمرے میں بھی نہیں آتا، کیونکہ انبیاء کے سوا کسی کا قول حجت نہیں۔ خاص طور پر ان جیسے گمراہ لوگ، جو اصول دین میں بکثرت اغلاط اور فساد اقوال کے حامل ہوتے ہیں، کیونکہ ان کے اقوال اگرچہ وہ ان کے ہاں متفق علیہ کیوں نہ ہوں خطا اور ضلالت پر مبنی ہیں۔ ﴿وَاِنَّا لَمُوَفُّوْہُمْ نَصِیْبَہُمْ غَیْرَ مَنْقُوْصٍ﴾ ’’اور ہم دینے والے ہیں ان کو ان کا حصہ بغیر کمی کیے‘‘ یعنی وہ لازمی طور پر دنیا کے حصے سے بہرہ ور ہوں گے جو ان کے لیے لکھ دیا گیا ہے۔ خواہ یہ دنیاوی نصیب آپ کی نظر میں کتنا ہی زیادہ کیوں نہ ہو مگر یہ ان کے احوال کے درست ہونے پر دلالت نہیں کرتا، کیونکہ اللہ تعالیٰ اسے بھی دنیا عطا کرتا ہے جس سے محبت کرتا ہے اور اسے بھی عطا کرتا ہے جس سے محبت نہیں کرتا مگر ایمان اور دین سے صرف اسی شخص کو نوازتا ہے جس سے وہ محبت کرتا ہے۔ حاصل کلام یہ ہے کہ گمراہ لوگوں کے اپنے گمراہ آباء و اجداد کے نظریات پر اتفاق کرلینے سے دھوکا نہیں کھانا چاہیے اور نہ اس بات سے دھوکہ چاہئے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو دنیاوی مال و متاع سے نواز رکھا ہے۔