أُولَٰئِكَ لَمْ يَكُونُوا مُعْجِزِينَ فِي الْأَرْضِ وَمَا كَانَ لَهُم مِّن دُونِ اللَّهِ مِنْ أَوْلِيَاءَ ۘ يُضَاعَفُ لَهُمُ الْعَذَابُ ۚ مَا كَانُوا يَسْتَطِيعُونَ السَّمْعَ وَمَا كَانُوا يُبْصِرُونَ
وہ ملک میں (بھاگ کر) تھکا نہ سکیں گے ، اور اللہ کے سوا ان کا کوئی دوست نہ ہوگا ، ان کو دونا عذاب ملے گا ، اس لئے کہ وہ دیکھتے نہ تھے (ف ٢) ۔
﴿أُولَـٰئِكَ لَمْ يَكُونُوا مُعْجِزِينَ فِي الْأَرْضِ ﴾ ” وہ لوگ نہیں تھکانے والے زمین میں“ یعنی وہ اللہ تعالیٰ سے کہیں بھاگ نہیں سکتے، کیونکہ وہ اس کی گرفت میں اور اس کے دست قدرت کے تحت ہیں ﴿وَمَا كَانَ لَهُم مِّن دُونِ اللَّـهِ مِنْ أَوْلِيَاءَ ﴾ ” اور نہیں ہیں ان کے واسطے اللہ کے سوا کوئی دوست“ جو ان کی تکلیف دور کرسکیں یا ان کے لئے کوئی فائدہ حاصل کرسکیں، بلکہ ان کے درمیان تمام اسباب منقطع ہوجائیں گے۔ ﴿يُضَاعَفُ لَهُمُ الْعَذَابُ ﴾ ” دوگنا ہے ان کے لئے عذاب“ ان کے لئے عذاب بہت سخت ہوگا اور بڑھتا چلا جائے گا“ کیونکہ انہوں نے خود اپنے آپ کو گمراہ کیا اور دوسروں کی گمراہی کا سبب بنے۔ ﴿ مَا كَانُوا يَسْتَطِيعُونَ السَّمْعَ ﴾ ” نہیں طاقت رکھتے تھے وہ سننے کی“ یعنی حق کے خلاف بغض اور نفرت رکھنے کی وجہ سے وہ اللہ تعالیٰ کی آیات کو سن نہیں سکتے جس سے وہ منتفع ہوسکیں ﴿ فَمَا لَهُمْ عَنِ التَّذْكِرَةِ مُعْرِضِينَ كَأَنَّهُمْ حُمُرٌ مُّسْتَنفِرَةٌ فَرَّتْ مِن قَسْوَرَةٍ ﴾(المدثر:74؍49۔51) ” انہیں کیا ہوگیا ہے کہ وہ نصیحت سے روگردانی کرتے ہیں گویا وہ بد کے ہوئے گدھے ہیں جو شیر سے ڈر کر بھاگے ہوں۔“ ﴿وَمَا كَانُوا يُبْصِرُونَ ﴾ ” اور نہ دیکھتے تھے“ یعنی وہ عبرت اور تفکر وتدبر کی نظر سے نہیں دیکھتے جس سے وہ فائدہ اٹھا سکیں۔ وہ تو بہروں اور گونگوں کی مانند ہیں جو سوچنے، سمجھنے سے محروم ہیں۔