سورة یونس - آیت 58

قُلْ بِفَضْلِ اللَّهِ وَبِرَحْمَتِهِ فَبِذَٰلِكَ فَلْيَفْرَحُوا هُوَ خَيْرٌ مِّمَّا يَجْمَعُونَ

ترجمہ سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

تو کہہ یہ اللہ کا فضل اور اس کی مہر سے سوچاہئے کہوہ اس سے خوش ہوں ، یہ اس سے بہتر ہے جو سمیٹتے ہیں ۔

تفسیر السعدی - عبدالرحمٰن بن ناصر السعدی

﴿فَبِذَٰلِكَ فَلْيَفْرَحُوا هُوَ خَيْرٌ مِّمَّا يَجْمَعُونَ﴾ ” پس اس پر انہیں خوش ہونا چاہئے، یہ بہتر ہے ان چیزوں سے جو وہ جمع کرتے ہیں۔“ یعنی دنیا کی متاع اور اس کی لذات سے بہتر ہے۔ دین کی نعمت، جس سے دنیا، آخرت کی سعادت نصیب ہوتی ہے۔ دنیا کے تمام مال و متاع کا اس سے کوئی مقابلہ ہی نہیں۔ دنیا کا مال و متاع تو عنقریب مضمحل ہو کر زائل ہوجائے گا اور اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل و رحمت پر خوش ہونے کا صرف اس لئے حکم دیا ہے کہ یہ نفس کے انبساط، نشاط، اللہ تعالیٰ کے لئے اس کے شکر، اس کی قوت، علم و ایمان میں شدید رغبت کا موجب اور علم و ایمان میں ازدیاد کا داعی ہے۔ یہ فرحت اور خوشی محمود ہے۔ اس کے برعکس دنیا کی شہوات و لذات اور باطل پر خوش ہونا مذموم ہے جیسا کہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے قارون کے بارے میں اس کی قوم کا قول نقل فرمایا ہے : ﴿ لَا تَفْرَحْ ۖ إِنَّ اللَّـهَ لَا يُحِبُّ الْفَرِحِينَ﴾ )القصص : 28؍76 )” خوشی میں اتراؤ مت ! اللہ تعالیٰ اترانے والوں کو پسند نہیں کرتا۔“ اور جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کے بارے میں فرمایا جو اپنے اس باطل پر اتراتے تھے جو انبیاء و رسل کی لائی ہوئی وحی کے متناقض تھا۔ ﴿فَلَمَّا جَاءَتْهُمْ رُسُلُهُم بِالْبَيِّنَاتِ فَرِحُوا بِمَا عِندَهُم مِّنَ الْعِلْمِ ﴾ (المومن : 40؍83) ” جب ان کے رسول ان کے پاس کھلی نشانیاں لے کر آئے، تو (بزعم خود)جو علم ان کے پاس تھا اس کی بنا پر اترانے لگے۔ “