سورة یونس - آیت 34

قُلْ هَلْ مِن شُرَكَائِكُم مَّن يَبْدَأُ الْخَلْقَ ثُمَّ يُعِيدُهُ ۚ قُلِ اللَّهُ يَبْدَأُ الْخَلْقَ ثُمَّ يُعِيدُهُ ۖ فَأَنَّىٰ تُؤْفَكُونَ

ترجمہ سراج البیان - مستفاد از ترجمتین شاہ عبدالقادر دھلوی/شاہ رفیع الدین دھلوی

ان سے پوچھ تمہارے شریکوں میں کوئی ہے کہ پہلے پیدا کرے پھر اسے لوٹائے ، تو کہہ اللہ ہی پہلے پیدا کرتا ہے ، پھر لوٹائے گا ، سو کہاں الٹے جاتے ہو ۔

تفسیر السعدی - عبدالرحمٰن بن ناصر السعدی

اللہ تبارک و تعالیٰ مشرکین کے معبودان باطل کی بے بسی اور ان کے ان صفات سے محروم ہونے کا، جو معبود گردانے جانے کی موجب ہیں، ذکر کرتے ہوئے فرماتا ہے : ﴿قُلْ هَلْ مِن شُرَكَائِكُم مَّن يَبْدَأُ الْخَلْقَ﴾ ” کہہ دیجئے ! کیا ہے تمہارے شریکوں میں جو پیدا کرے مخلوق کو“ یعنی پہلی مرتبہ اسے بنائے؟ ﴿ثُمَّ يُعِيدُهُ ۚ﴾ ” پھر اسے دوبارہ زندہ کرے“ یہ استفہام بمعنی نفی اور اثبات کے ہے، یعنی مخلوق میں سے کوئی ایسی ہستی نہیں ہے جو مخلوق کی تخلیق کی ابتدا اور پھر اس کا اعادہ کرسکتی ہو، وہ ایسا کرنے سے یکسر عاجز اور کمزور ہے۔ ﴿قُلِ اللَّـهُ يَبْدَأُ الْخَلْقَ ثُمَّ يُعِيدُهُ ﴾ ” کہہ دیجئے ! کہ اللہ ہی پہلی بار پیدا کرتا ہے، پھر وہی اس کو دوبارہ پیدا کرے گا۔“ یعنی اللہ تعالیٰ ہی بغیر کسی شریک کی شراکت اور بغیر کسی معاون کی مدد کے تخلیق کی ابتداء کرتا ہے پھر اس کا اعادہ کرتا ہے ﴿فَأَنَّىٰ تُؤْفَكُونَ﴾ ” پس کہاں پھرے جاتے ہوتم؟“ یعنی ہر اس ہستی کی عبادت سے منحرف ہو کر جو مخلوق کی ابتدا کرنے اور پھر اس کا اعادہ کرنے میں متفرد ہے‘ ایسی ہستیوں کی عبادت کر رہے ہو جو کچھ تخلیق کرنے سے قاصر، بلکہ خود مخلوق ہیں۔