سورة یونس - آیت 20

وَيَقُولُونَ لَوْلَا أُنزِلَ عَلَيْهِ آيَةٌ مِّن رَّبِّهِ ۖ فَقُلْ إِنَّمَا الْغَيْبُ لِلَّهِ فَانتَظِرُوا إِنِّي مَعَكُم مِّنَ الْمُنتَظِرِينَ

ترجمہ سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

اور کہتے ہیں کہ اس پر اس کے رب کے پاس سے کوئی معجزہ کیوں نازل نہ ہوا سو تو کہہ غیب کی بات اللہ جانے تم منتظر رہو ، میں بھی تمہارے ساتھ منتظر ہوں (ف ١) ۔

تفسیر السعدی - عبدالرحمٰن بن ناصر السعدی

﴿ وَيَقُولُونَ﴾ ” اور یہ کہتے ہیں۔“ یعنی لغزشیں تلاش کرنے اور جھٹلانے والے کہتے ہیں : ﴿ لَوْلَا أُنزِلَ عَلَيْهِ آيَةٌ مِّن رَّبِّهِ ﴾ ” کیوں نہیں اتاری گئی اس پر کوئی آیت اس کے رب کی طرف سے“ یعنی وہ آیات جن کا وہ مطالبہ کرتے ہیں، مثلاً وہ کہا کرتے تھے : ﴿لَوْلَا أُنزِلَ إِلَيْهِ مَلَكٌ فَيَكُونَ مَعَهُ نَذِيرًا﴾ (الفرقان : 25؍7) ” اس کے پاس کوئی فرشتہ کیوں نہیں نازل کیا گیا جو ڈرانے کو اس کے ساتھ رہتا“ اور جیسے ان کا یہ قول ہے ﴿وَقَالُوا لَن نُّؤْمِنَ لَكَ حَتَّىٰ تَفْجُرَ لَنَا مِنَ الْأَرْضِ يَنبُوعًا ﴾ (بنی سسرائیل : 17؍90) ” اور انہوں نے کہا : ہم تم پر ایمان نہیں لائیں گے جب تک کہ تم ہمارے لئے زمین میں سے چشمہ جاری نہ کر دو۔ “ ﴿ فَقُلْ﴾ جب وہ آ پ سے کسی آیت کا مطالبہ کریں تو آپ کہہ دیجئے ! ﴿ إِنَّمَا الْغَيْبُ لِلَّـهِ﴾ ” غیب کی بات تو اللہ ہی جانے“ یعنی اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے علم کے ذریعے سے اپنے بندوں کے احوال کا احاطہ کئے ہوئے ہے، وہ اپنے علم اور انوکھی حکمت کے تقاضے کے مطابق ان کی تدبیر کرتا ہے کسی حکم، کسی دلیل، کسی غایت و انتہا اور کسی تعلیل کی تدبیر میں کسی کا کوئی اختیار نہیں۔ ﴿فَانتَظِرُوا إِنِّي مَعَكُم مِّنَ الْمُنتَظِرِينَ﴾ ”پس انتظار کرو، میں بھی تمہارے ساتھ انتظار کرتا ہوں“ یعنی ہر ایک دوسرے کے بارے میں منتظر رہے جس کا وہ اہل ہے اور دیکھے کہ کس کا انجام اچھا ہوتا ہے؟