سورة التوبہ - آیت 111

إِنَّ اللَّهَ اشْتَرَىٰ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ أَنفُسَهُمْ وَأَمْوَالَهُم بِأَنَّ لَهُمُ الْجَنَّةَ ۚ يُقَاتِلُونَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ فَيَقْتُلُونَ وَيُقْتَلُونَ ۖ وَعْدًا عَلَيْهِ حَقًّا فِي التَّوْرَاةِ وَالْإِنجِيلِ وَالْقُرْآنِ ۚ وَمَنْ أَوْفَىٰ بِعَهْدِهِ مِنَ اللَّهِ ۚ فَاسْتَبْشِرُوا بِبَيْعِكُمُ الَّذِي بَايَعْتُم بِهِ ۚ وَذَٰلِكَ هُوَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ

ترجمہ سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

مسلمانوں سے ان کی جانیں اور مال اللہ نے بہشت کے بدلے خرید کی ہیں ، وہ اللہ کی راہ میں لڑتے ہیں ، پھر مارتے اور مرتے ہیں ، یہ سچا وعدہ ہے جو اللہ پر لازم ہے ، اور توریت اور انجیل اور قرآن میں لکھا ہے ۔ اور اللہ سے زیادہ اپنے عہد کا پورا کرنے والا کون ہے ، سو اپنی اس بیع پر جو تم نے اس سے کی ، خوشی کرو ، اور یہ بڑی مراد پانی ہے (ف ١) ۔

تفسیر السعدی - عبدالرحمٰن بن ناصر السعدی

اللہ تبارک و تعالیٰ سچی خبر دیتا ہے، ایک عظیم بیع اور ایک بہت بڑے معاوضے کا سچا وعدہ کرتا ہے اور وہ بیع یہ ہے کہ ﴿اشْتَرَىٰ﴾ ” اس نے خرید لیا۔“ یعنی اللہ نے بنفس نفیس خرید لیا ﴿مِنَ الْمُؤْمِنِينَ أَنفُسَهُمْ وَأَمْوَالَهُم ﴾ ” مومنوں سے ان کی جانوں اور ان کے مالوں کو“ یعنی ان کی جان اور ان کے مال کی قیمت لگا دی گئی ہے اور یہ فروخت شدہ مال تجارت ہے۔ ﴿بِأَنَّ لَهُمُ الْجَنَّةَ﴾ ” اس کے بدلے میں ان کے لئے (وہ) جنت ہے“ جس میں ہر وہ چیز ہوگی جس کی نفس خواہش کریں گے اور جس سے آنکھیں لذت حاصل کریں گی، یعنی انواع و اقسام کی لذتیں، فرحتیں، مسرتیں، خوبصورت حوریں اور دلکش مکانات ہوں گے۔ اس عقد و بیع کا وصف یہ ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی خاطر، اس کے دشمنوں کے خلاف جہاد میں، اس کے کلمہ کو سر بلند کرنے اور اس کے دین کو غالب کرنے کے لئے اپنی جان اور مال خرچ کرتے ہیں۔ ﴿يُقَاتِلُونَ فِي سَبِيلِ اللَّـهِ فَيَقْتُلُونَ وَيُقْتَلُونَ﴾ ” وہ لڑتے ہیں اللہ کے راستے میں، پس مارتے ہیں اور مارے جاتے ہیں“ یہ عقد و بیع بہت سی تاکیدات کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی طرف سے صادر ہوئی ہے ﴿وَعْدًا عَلَيْهِ حَقًّا فِي التَّوْرَاةِ وَالْإِنجِيلِ وَالْقُرْآنِ ۚ﴾ ”وعدہ ہوچکا ہے اس کے ذمے سچا، تورات میں، انجیل میں اور قرآن میں۔“ جو ان تمام کتابوں میں سب سے افضل و اعلیٰ کتاب ہے اور یہ کتابیں سب سے کامل کتابیں ہیں جو اس دنیا میں بھیجی گئیں اور ان کتابوں کو لانے والے سب سے کامل اور اولوالعزم رسول ہیں، یہ تمام کتابیں اس سچے وعدے پر متفق ہیں۔ ﴿وَمَنْ أَوْفَىٰ بِعَهْدِهِ مِنَ اللَّـهِ ۚ فَاسْتَبْشِرُوا﴾ ” اور کون ہے اللہ سے زیادہ قول کا پورا، پس خوشی کرو۔‘‘ اللہ تعالیٰ کے وعدے پر قائم رہنے والے مومنو ! ﴿بِبَيْعِكُمُ الَّذِي بَايَعْتُم بِهِ﴾ ” اس سودے پر جو تم نے اس سے کیا ہے“ تاکہ تم راضی اور خوش ہوجاؤ، ایک دوسرے کو خوشخبری دو اور ایک دوسرے کو جہاد کی ترغیب دو ﴿ وَذَٰلِكَ هُوَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ﴾ ” اور یہی بڑی کامیابی ہے۔“ جس سے بڑی اور جلیل القدر اور کوئی کامیابی نہیں، کیونکہ یہ کامیابی ابدی سعادت، دائمی نعمت اور اللہ تعالیٰ کی رضا، جو کہ جنت کی سب سے بڑی نعمت ہے، کو متضمن ہے۔ اگر آپ اس معاہدہ بیع کی قدر و منزلت کو جاننا چاہیں تو خریدار کی طرف دیکھیں کہ وہ کون ہے؟ وہ اللہ تبارک و تعالیٰ کی ذات گرامی ہے اور اس عوض کی طرف نظر کریں جو سب سے بڑا معاوضہ ہے اور اس معاوضے میں سب سے جلیل القدر چیز جنت ہے اور اس قیمت پر غور کریں جو اس معاوضے کے بدلے میں خرچ کی گئی ہے اور وہ ہے جان اور مال جو انسان کے نزدیک سب سے زیادہ محبوب چیز ہے اور اس ہستی کی طرف دیکھیں جس کے ہاتھ پر یہ معاہدہ بیع منعقد ہوا ہے، وہ تمام رسولوں میں سب سے زیادہ شرف کی حامل ہستی ہے۔ یہ معاہدہ کون سی کتابوں میں رقم کیا گیا ہے؟ اللہ تعالیٰ کی عظیم کتابوں میں یہ معاہدہ تحریر کیا گیا ہے جو مخلوق میں سب سے افضل ہستیوں پر نازل کی گئی ہیں۔