وَمِمَّنْ حَوْلَكُم مِّنَ الْأَعْرَابِ مُنَافِقُونَ ۖ وَمِنْ أَهْلِ الْمَدِينَةِ ۖ مَرَدُوا عَلَى النِّفَاقِ لَا تَعْلَمُهُمْ ۖ نَحْنُ نَعْلَمُهُمْ ۚ سَنُعَذِّبُهُم مَّرَّتَيْنِ ثُمَّ يُرَدُّونَ إِلَىٰ عَذَابٍ عَظِيمٍ
اور بعض دیہاتی جو تمہارے گردا گرد ہیں ، منافق ہیں اور بعض مدینہ والے نفاق پر اڑ رہے ہیں ، تو انہیں نہیں جانتا ہم جانتے ہیں ، ہم انہیں دنیا میں دوبار عذاب پھر بڑے عذاب کی طرف لوٹائے جائیں گے (ف ١) ۔
﴿وَمِمَّنْ حَوْلَكُم مِّنَ الْأَعْرَابِ مُنَافِقُونَ ۖ وَمِنْ أَهْلِ الْمَدِينَةِ﴾ ” اور تمہارے گرد رہنے والے گنواروں میں سے بعض منافق ہیں اور بعض مدینے والوں میں سے“ یعنی مدینہ میں بھی منافقین موجود ہیں ﴿مَرَدُوا عَلَى النِّفَاقِ﴾ ” اڑے ہوئے ہیں وہ نفاق پر“ یعنی نفاق کے عادی ہیں اور نفاق میں ان کی سرکشی بڑھتی جا رہی ہے ﴿ لَا تَعْلَمُهُمْ ﴾ ” آپ ان کو نہیں جانتے۔“ یعنی آپ ان کے اعیان کو نہیں جانتے کہ آپ ان کو سزا دے سکیں یا ان کے نفاق کے مطابق ان کے ساتھ معاملہ کرسکیں۔ اس میں بھی اللہ تعالیٰ کی بہت بڑی حکمت پنہاں ہے۔ ﴿نَحْنُ نَعْلَمُهُمْ ۚ سَنُعَذِّبُهُم مَّرَّتَيْنِ﴾ ” ہم ان کو جانتے ہیں، ہم ان کو دو مرتبہ عذاب دیں گے۔“ اس میں اس بات کا احتمال ہے کہ ”تثنیہ“ کا لفظ اپنے حقیقی باب (معنی) میں استعمال ہوا ہو، تب اس سے مراد دنیا کا عذاب اور آخرت کا عذاب ہے۔ پس دنیا میں اہل ایمان کی فتح و نصرت سے ان کو جو غم و ہموم اور سخت ناگواری کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ وہ دنیا کا عذاب ہے اور آخرت میں ان کے لئے جہنم کا عذاب ہے جو بہت ہی برا ٹھکانا ہے اور یہ احتمال بھی موجود ہے کہ اس سے مراد یہ ہو کہ ہم ان کو نہایت سخت عذاب دیں گے، ان کو دگنا عذاب دیں گے اور بار بار عذاب دیں گے۔