أَلَمْ يَعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ يَعْلَمُ سِرَّهُمْ وَنَجْوَاهُمْ وَأَنَّ اللَّهَ عَلَّامُ الْغُيُوبِ
کیا نہیں جانتے کہ اللہ ان کے بھید اور مشورے جانتا ہے ، اور اللہ بڑا غیب دان ہے ۔
﴿أَلَمْ يَعْلَمُوا أَنَّ اللَّـهَ يَعْلَمُ سِرَّهُمْ وَنَجْوَاهُمْ وَأَنَّ اللَّـهَ عَلَّامُ الْغُيُوبِ﴾ ” کیا انہیں معلوم نہیں کہ اللہ جانتا ہے ان کا بھید اور ان کا مشورہ اور یہ کہ اللہ خوب جانتا ہے سب چھپی باتوں کو“ پس اللہ تعالیٰ ان کو ان کے ان اعمال کی جزا دے گا جنہیں وہ جانتا ہے۔ یہ آیات کریمہ منافقین میں سے ایک شخص کے بارے میں نازل ہوئیں جسے ” ثعلبہ“ کہا جاتا تھا۔ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ آپ میرے لئے دعا کیجیے کہ اللہ تعالیٰ اسے اپنے فضل سے نواز دے، اگر اللہ تعالیٰ نے اسے اپنے فضل و کرم سے نواز دیا تو وہ اللہ کے راستے میں صدقہ کرے گا، صلہ رحمی کرے گا اور راہ حق میں خرچ کرے گا۔“ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کے لئے دعا فرمائی۔ اس شخص کے پاس بکریوں کا ریوڑ تھا، وہ ریوڑ بڑھتا چلا گیا یہاں تک کہ اسے اس ریوڑ کو لے کر مدینہ منورہ سے باہر جانا پڑا۔ وہ نماز پنجگانہ میں سے کسی اکا دکا نماز میں حاضر ہوتا تھا پھر اور دور چلا گیا یہاں تک کہ وہ صرف جمعہ کی نماز میں حاضر ہوتا تھا۔ جب بکریاں بہت زیادہ ہوگئیں تو وہ اور دور چلا گیا اور اس نے جماعت اور جمعہ دونوں میں حاضر ہونا بند کردیا۔ پس جب وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو نظر نہ آیا اور آپ نے اس کے بارے میں پوچھا تو آپ کو اس کے حال کے بارے میں آگاہ کیا گیا۔ آپ نے کسی کو اس کے گھر صدقات کی وصولی کے لئے بھیجا۔ وہ ثعلبہ کے پاس آیا۔ ثعلبہ نے کہا ” یہ تو جزیہ ہے، یہ تو جزیہ کی بہن ہے۔‘‘۔۔۔۔۔ پس اس نے زکوٰۃ ادا نہ کی، زکوٰۃ کے تحصیل دار رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپ کو تمام امور سے آگاہ کیا آپ نے تین بار فرمایا (یَاوَیْحَ ثعْلبۃ) ” افسوس ثعلبہ کے لئے ہلاکت ہے۔“ جب اس کے بارے میں اور اس جیسے دیگر لوگوں کے بارے میں یہ آیت کریمہ نازل ہوئی تو اس کے گھر والوں میں سے کوئی شخص اس کے پاس گیا اور اس آیت کریمہ کے نازل ہونے کے بارے میں آگاہ کیا۔ چنانچہ وہ زکوٰۃ لے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا۔ مگر آپ نے وہ زکوٰۃ قبول نہ فرمائی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وفات کے بعد وہ زکوٰۃ لے کر حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوا مگر حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے بھی زکوٰۃ قبول نہ فرمائی۔ جناب ابوبکر کی وفات کے بعد حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوا مگر انہوں نے بھی زکوٰۃ قبول نہ فرمائی۔ کہا جاتا ہے کہ وہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے عہد میں مر گیا۔ [ثعلبہ کا یہ واقعہ بہت سے مفسرین نے ذکر کیا ہے۔ لیکن اس کو ماہر نقاد محدثین نے ضعیف قرار دیا ہے۔ جیسے امام ابن حزم، بیہقی‘قرطبی، ہیثمی، عراقی، ابن حجر، سیوطی اور امام مناوی رحمہم اللہ نے اس کو ضعیف کہا ہے۔ اس قصے کی سند میں، علی بن یزید، معان بن رفاعۃ اور قاسم بن عبدالرحمان ضعیف راوی ہیں اور ابن حزم رحمہ اللہ نے اس کو متن کے اعتبار سے بھی ضعیف قرار دیا ہے۔ دیکھیے : المحلی (11؍208) الاصابۃ : ترجمۃ ثعلبۃ، مجمع الزوائد، (7؍ 32 الجامع لأحکام القرآن (8؍ 210)، فیض القدیر (4؍ 257) فتح الباری (3؍ 8)، لباب النقول للسیوطی (121) و تخریج الاحیاء للعراقی (3؍ 338) (از محقق) اس لئے اس سے حضرت ثعلبہ بن حاطب انصاری رضی اللہ عنہ کو مراد لینا، درست نہیں ہے۔ اس آیت میں بھی دراصل منافقین ہی کے کردار کے ایک نمونے کا بیان ہے۔ (ص۔ ی)]