وَلَئِن سَأَلْتَهُمْ لَيَقُولُنَّ إِنَّمَا كُنَّا نَخُوضُ وَنَلْعَبُ ۚ قُلْ أَبِاللَّهِ وَآيَاتِهِ وَرَسُولِهِ كُنتُمْ تَسْتَهْزِئُونَ
اور جو تو ان سے پوچھے ! تو ضرور کہیں گے کہ ہم تو بطور کھیل مباحثہ کرتے چلتے تھے ، تو کہہ ! کیا تم اللہ اور اس کی آیات اور اس کے رسول سے ٹھٹھے کرتے تھے ۔
اللہ تبارک و تعالیٰ فرماتا ہے : ﴿وَلَئِن سَأَلْتَهُمْ﴾ ” اور اگر آپ ان سے دریافت کریں۔“ اس بارے میں جو وہ مسلمانوں اور ان کے دین کی بابت طعن و تشنیع کرتے ہیں۔ ان میں سے ایک گروہ غزوہ تبوک کے موقع پر کہتا تھا ” ہم نے ان جیسے لوگ نہیں دیکھے“ ان کی مراد نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور آپ کے اصحاب کرام تھے۔۔۔” جو کھانے میں پیٹو، زبان کے جھوٹے اور میدان جنگ میں بزدلی دکھانے والے ہیں۔“ [تفسیر طبری، 6؍ 220] جب انہیں یہ بات پہنچی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ان کی ہر زہ سرائی کا علم ہوگیا ہے تو معذرت کرتے اور یہ کہتے ہوئے آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے ﴿ إِنَّمَا كُنَّا نَخُوضُ وَنَلْعَبُ ﴾ ” ہم تو بات چیت کرتے تھے اور دل لگی“ یعنی ہم تو ایک ایسی بات کہہ رہے تھے جس سے کسی کو نشانہ بنانا یا طعن اور رعیب جوئی ہمارا مقصود نہ تھا۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے ان کا عدم عذر اور ان کا جھوٹ واضح کرتے ہوئے فرمایا : ﴿قُلْ﴾ ان سے کہہ دیجیے : ﴿ أَبِاللَّـهِ وَآيَاتِهِ وَرَسُولِهِ كُنتُمْ تَسْتَهْزِئُونَ لَا تَعْتَذِرُوا قَدْ كَفَرْتُم بَعْدَ إِيمَانِكُمْ ۚ﴾ ” کیا تم اللہ سے، اس کے حکموں سے اور اس کے رسول سے ٹھٹھے کرتے تھے؟ تم بہانے مت بناؤ تم ایمان لانے کے بعد کافر ہوچکے ہو۔“ کیونکہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ استہزاء اور تمسخر کفر ہے جو دائرہ اسلام سے خارج کردیتا ہے، کیونکہ دین کی اساس اللہ تعالیٰ، اس کے دین اور اس کے رسول کی تعظیم پر مبنی ہے۔ ان میں سے کسی کے ساتھ استہزاء کرنا اس اساس کے منافی اور سخت متناقض ہے۔ بنا بریں جب وہ معذرت میں یہ بات کہتے ہوئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان سے اس سے زیادہ کچھ نہ فرمایا ﴿ أَبِاللَّـهِ وَآيَاتِهِ وَرَسُولِهِ كُنتُمْ تَسْتَهْزِئُونَ لَا تَعْتَذِرُوا قَدْ كَفَرْتُم بَعْدَ إِيمَانِكُمْ﴾ ” کیا تم اللہ، اس کی آیات اور اس کے رسول کے ساتھ دل لگی کرتے تھے؟ اب معذرتیں نہ کرو تم نے ایمان لانے کے بعد کفر کا ارتکاب کیا۔“ فرمایا :