سورة الانفال - آیت 66

الْآنَ خَفَّفَ اللَّهُ عَنكُمْ وَعَلِمَ أَنَّ فِيكُمْ ضَعْفًا ۚ فَإِن يَكُن مِّنكُم مِّائَةٌ صَابِرَةٌ يَغْلِبُوا مِائَتَيْنِ ۚ وَإِن يَكُن مِّنكُمْ أَلْفٌ يَغْلِبُوا أَلْفَيْنِ بِإِذْنِ اللَّهِ ۗ وَاللَّهُ مَعَ الصَّابِرِينَ

ترجمہ سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

اب اللہ نے تمہارا بوجھ ہلکا کیا اور معلوم کرلیا کہ تم میں سستی ہے ، پس اگر تم میں سو صابر ہوں ، دو سو پر غالب ہوں گے ، اور اگر تم میں ہزار ہوں ، دو ہزار پر غالب ہوں گے ، اللہ کے حکم سے اور اللہ ثابت قدموں کے ساتھ ہے ۔

تفسیر السعدی - عبدالرحمٰن بن ناصر السعدی

چنانچہ فرمایا : ﴿الْآنَ خَفَّفَ اللَّـهُ عَنكُمْ وَعَلِمَ أَنَّ فِيكُمْ ضَعْفًا ﴾ ” اب بوجھ ہلکا کردیا اللہ نے تم پر سے اور جان لیا کہ تم میں کمزوری ہے۔‘‘ اسی لئے اللہ کی رحمت اور اس کی حکمت اس بات کی متقاضی ہوئی کہ اس حکم میں تخفیف کردی جائے، چنانچہ اب اگر تم میں سے سو آدمی ثابت قدم رہنے والے ہوں، تو وہ دو سو پر اور اگر ہزار ہوں تو وہ دو ہزار پر غالب ہوں گے۔ ﴿وَاللَّـهُ مَعَ الصَّابِرِينَ ﴾ ” اور اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ اپنی مدد اور تائید کے ذریعے سے صبر کرنے والوں کے ساتھ ہوتا ہے۔ ان آیات کریمہ کا اسلوب اگرچہ اہل ایمان کے بارے میں خبر کا ہے کہ جب وہ اس معینہ تعداد تک پہنچتے ہیں تو وہ مقابلے میں کفار کی مذکورہ تعداد پر غالب آجاتے ہیں اور اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان پر اپنے اس احسان کا ذکر فرمایا کہ اس نے ان کو شجاعت ایمانی سے نوازا ہے، مگر اس کا معنی اور حقیقی منشا امر ہے۔ یعنی اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کو پہلے حکم دیا کہ ایک مومن کو (میدان جنگ میں) دس کافروں کے مقابلے سے فرار نہیں ہونا چاہیے، اسی طرح دس مومنوں کو سو کافروں اور سومومنوں کو ہزار کافروں کے مقابلے سے منہ نہیں موڑنا چاہیے۔ پھر اس بارے میں اللہ تعالیٰ نے تخفیف فرما دی اور حکم دیا کہ وہ اپنے سے دوگنا کفار کے مقابلے سے فرار نہ ہوں۔ اگر کفار کی تعداد دوگنا سے زیادہ ہو تو اس صورت میں کفار کے مقابلے سے بھاگنا جائز ہے، مگر دو امور اس کی تردید کرتے ہیں۔ 1۔ یہ حکم خبر کے اسلوب میں ہے اور خبر کا اصول یہ ہے کہ یہ اپنے باب کے مطابق استعمال ہوتی ہے اور اس سے مقصود اللہ تعالیٰ کے احسان کا ذکر اور امر واقع کی خبر دینا ہے۔ 2۔ اس عدد مذکور کو صبر کی قید کے ساتھ مقید کیا گیا ہے۔ یعنی انہوں نے صبر کو مشق کے ذریعے سے اپنی عادت بنا لیا ہو۔ اس کا مفہوم مخالف یہ ہے کہ اگر وہ صابر نہ ہوں تو ان کے لئے فرار جائز ہے خواہ کافران سے کم ہی کیوں نہ ہوں۔ یہ اس صورت میں ہے جب نقصان پہنچنے کا اندیشہ غالب ہو، جیسا کہ حکمت الٰہیہ کا تقاضا ہے۔ پہلے نکتے کا جواب یہ ہے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ کا ارشاد ﴿الْآنَ خَفَّفَ اللَّـهُ عَنكُمْ ﴾۔۔۔ سے لے کر ﴿مَعَ الصَّابِرِينَ ﴾ تک۔۔۔ اس بات کی دلیل ہے کہ یہ امر لازم اور حتمی ہے، پھر اللہ تعالیٰ نے اس تعداد میں تخفیف فرما دی۔ پس اس سے ثابت ہوتا ہے کہ آیت کریمہ کا پیرا یہ اگرچہ خبر کا ہے،مگر اس سے مراد امر ہے۔ اس بارے میں یہ بھی کہا جاتا ہے کہ حکم کو خبر کے پیرائے میں بیان کرنے میں ایک انوکھا نکتہ پنہاں ہے، جو امر کے اسلوب میں ہرگز نہ پایا جاتا۔۔۔ اور وہ یہ کہ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اہل ایمان کے دلوں کے لئے تقویت اور بشارت ہےکہ وہ عنقریب کافروں پر غالب آئیں گے۔ دوسرے نکتے کا جواب یہ دیا جاتا ہے کہ اہل ایمان کو صبر کی صفت سے مقید کرنا درحقیقت ان کو صبر کی ترغیب دینا ہے۔ یعنی تمہارے لئے مناسب یہ ہے کہ تم وہ تمام اسباب اختیار کرو جو صبر کے موجب ہیں۔ جب وہ صبر کا التزام کرتے ہیں تو تمام اسباب ایمانی اور اسباب مادی اس امر کے حصول کی خوشخبری دیتے ہیں، جس کی اللہ تعالیٰ نے خبر دی ہے۔۔۔ یعنی اہل ایمان کی قلیل تعداد کو فتح و نصرت سے نوازنا۔