سورة الاعراف - آیت 203

وَإِذَا لَمْ تَأْتِهِم بِآيَةٍ قَالُوا لَوْلَا اجْتَبَيْتَهَا ۚ قُلْ إِنَّمَا أَتَّبِعُ مَا يُوحَىٰ إِلَيَّ مِن رَّبِّي ۚ هَٰذَا بَصَائِرُ مِن رَّبِّكُمْ وَهُدًى وَرَحْمَةٌ لِّقَوْمٍ يُؤْمِنُونَ

ترجمہ سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

اور جب تو ان کے پاس کوئی آیت نہیں لاتا کہتے ہیں کہ کیوں کوئی آیت نہیں چھانٹ لایا تو کہہ میں تو صرف اس کے تابع ہوئی مجھے میرے رب سے وحی کیجاتی ہے یہ تمہارے رب سے ہدایت اور رحمت اور سمجھ کی باتیں ہیں مومنین کے لئے (ف ٢) ۔

تفسیر السعدی - عبدالرحمٰن بن ناصر السعدی

یہ جھٹلانے والے آپ کے ساتھ عناد رکھتے ہی رہیں گے خواہ ان کے پاس رشد و ہدایت پر کتنے ہی دلائل کیوں نہ آجائیں۔ پس جب آپ ان کو کوئی ایسی دلیل دیتے ہیں جو آپ کی صداقت پر دلالت کرتی ہے، تو یہ اسے تسلیم نہیں کرتے۔﴿وَإِذَا لَمْ تَأْتِهِم بِآيَةٍ﴾ ” اور جب تم ان کے پاس کوئی آیت نہیں لاتے۔“ یعنی جب ان کے حسب خواہش آیات و معجزات نہیں لاتے ﴿قَالُوا لَوْلَا اجْتَبَيْتَهَا﴾ ” تو کہتے ہیں کہ تم نے (اپنی طرف سے) کیوں نہیں بنا لی۔“ یعنی کہتے ہیں کہ تم فلاں آیت اور فلاں معجزہ کیوں نہیں لاتے گویا کہ آیات اور معجزات آپ نازل کرتے ہیں اور تمام مخلوقات کی تدبیر آپ کرتے ہیں۔ حالانکہ انہیں اس بات کا علم نہیں کہ آپ تو کسی چیز کا اختیار نہیں رکھتے۔۔۔ (یا وہ یوں کہتے ہیں کہ) تم نے ان آیات کو اپنے پاس سے کیوں نہیں گھڑ لیا۔ ﴿قُلْ إِنَّمَا أَتَّبِعُ مَا يُوحَىٰ إِلَيَّ مِن رَّبِّي﴾” کہہ دیجیے کہ میں تو اس حکم کی اتباع کرتا ہوں جو میرے رب کی طرف سے میرے پاس آتا ہے۔“ پس میں تو اللہ تعالیٰ کا تابع فرمان بندہ اور اس کے دست تدبیر کے تحت ہوں۔ وہ اللہ تعالیٰ ہی ہے جو معجزات نازل کرتا ہے وہ اپنی حمد و ثنا اور حکمت بالغہ کے تقاضوں کے مطابق آیات اور معجزات بھیجتا ہے۔ اگر تم ایسی نشانی اور معجزہ چاہتے ہو جو مرور اوقات کے ساتھ کمزور نہ ہو اور ایسی حجت چاہتے ہو جو کسی بھی لمحہ باطل نہ ہو، تو ﴿هَـٰذَا﴾ ” یہ“ قرآن عظیم اور ذکر حکیم ﴿بَصَائِرُ مِن رَّبِّكُمْ ﴾ ” تمہارے رب کی طرف سے دانائی ہے“ جن کے ذریعے سے الٰہی مطالب اور انسانی مقاصد کو پرکھا جاتا ہے۔ یہ قرآن عظیم دلیل اور مدلول ہے۔ جو کوئی اس میں تدبر کرتا ہے تو اسے معلوم ہوجاتا ہے کہ یہ اللہ، حکمت والے اور قابل تعریف کی طرف سے نازل کردہ ہے، باطل جس کے سامنے سے آسکتا ہے نہ پیچھے سے اور یہ قرآن ہر اس شخص کے خلاف حجت ہے جس کے پاس یہ پہنچتا ہے۔ مگر اکثر لوگ ایمان نہیں لاتے۔ ورنہ جو کوئی اس پر ایمان لاتا ہے ﴿ وَهُدًى﴾” اور ہدایت ہے“ تو یہ قرآن گمراہی کے اندھیرے میں اس کے لئے ہدایت کا نور ہے﴿ وَرَحْمَةٌ ﴾” اور رحمت ہے“ اور بدبختیوں میں اللہ تعالیٰ کی رحمت ہے۔ پس مومن قرآن سے راہنمائی حاصل کرتا ہے اور اس کی اتباع کرتا ہے، اپنی دنیا و آخرت میں سعادت مند ہے اور جو کوئی اس پر ایمان نہیں لاتا وہ دنیا و آخرت میں گمراہ اور بدبخت ہے۔