قُل لَّا أَمْلِكُ لِنَفْسِي نَفْعًا وَلَا ضَرًّا إِلَّا مَا شَاءَ اللَّهُ ۚ وَلَوْ كُنتُ أَعْلَمُ الْغَيْبَ لَاسْتَكْثَرْتُ مِنَ الْخَيْرِ وَمَا مَسَّنِيَ السُّوءُ ۚ إِنْ أَنَا إِلَّا نَذِيرٌ وَبَشِيرٌ لِّقَوْمٍ يُؤْمِنُونَ
تو کہہ میں اپنی جان کے بھلے یا برے کا مالک نہیں ہوں ‘ لیکن جو کچھ اللہ چاہے ‘ اور اگر میں (ف ٢) ۔ غیب کی بات جانتا ، تو بہت سی خوبیاں جمع کرلیتا ، اور مجھے کوئی برائی نہ پہنچتی ، میں تو مومنوں کو صرف ڈرانے اور خوشی سنانے والا ہوں ۔
﴿قُل لَّا أَمْلِكُ لِنَفْسِي نَفْعًا وَلَا ضَرًّا﴾ ” کہہ دیجیے ! میں تو اپنے نفس کے لئے بھی نفع و نقصان کا اختیار نہیں رکھتا“ اس لئے کہ میں تو محتاج بندہ ہوں اور کسی دوسری ہستی کے دست تدبیر کے تحت ہوں۔ مجھے اگر کوئی بھلائی عطا ہوتی ہے تو صرف اللہ تعالیٰ کی طرف سے اور مجھ سے شر بھی کوئی دور کرتا ہے تو صرف وہی اور میرے پاس کوئی علم بھی نہیں، سوائے اس کے جو اللہ تعالیٰ مجھے عطا کیا ہے﴿وَلَوْ كُنتُ أَعْلَمُ الْغَيْبَ لَاسْتَكْثَرْتُ مِنَ الْخَيْرِ وَمَا مَسَّنِيَ السُّوءُ﴾” اگر میں غیب جان لیا کرتا تو بہت بھلائیاں حاصل کرلیتا اور مجھے برائی کبھی نہ پہنچتی“ یعنی میں وہ اسباب مہیا کرلیتا جن کے بارے میں مجھے علم ہوتا کہ وہ مصالح اور منافع پر منتج ہوں گے اور میں ہر تکلیف دہ اور ناپسندیدہ چیز سے بچ جاتا کیونکہ مجھے ان کے وقوع کا بھی پہلے ہی سے علم ہوتا اور مجھے یہ بھی معلوم ہوتا کہ اس کا نتیجہ کیا ہوگا۔ مگر مجھے غیب کا علم نہ ہونے کی وجہ سے کبھی کبھی تکلیف بھی پہنچتی ہے اور اسی وجہ سے کبھی کبھی مجھ سے دنیاوی فوائد اور مصالح بھی فوت ہوجاتے ہیں اور یہ اس بات کی اولین دلیل ہے کہ میں غیب کا علم نہیں جانتا ﴿ إِنْ أَنَا إِلَّا نَذِيرٌ﴾” میں تو صرف ڈر سنانے والا ہوں۔“ یعنی میں تو صرف دنیاوی، دینی اور آخروی سزاؤں سے ڈراتا ہوں اور ان اعمال سے آگاہ کرتا ہوں جو ان سزاؤں کا باعث بنتے ہیں اور سزاؤں سے بچنے کی تلقین کرتا ہوں۔ ﴿وَبَشِيرٌ﴾ ” اور خوشخبری سنا نے والا ہوں۔“ اور ثواب عاجل و آجل کی منزل تک پہنچانے والے اعمال کو واضح کر کے اور ان کی ترغیب دے کر اس ثواب کی خوشخبری سناتا ہوں مگر ہر شخص اس تبشیر و انذار کو قبول نہیں کرتا بلکہ صرف اہل ایمان ہی اس بشارت و انذار کو قبول کر کے اس سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔ یہ آیات کریمہ اس شخص کی جہالت کو بیان کرتی ہیں جو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات کو مقصود بناتا ہے اور حصول منفعت اور دفع مضرت کے لئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو پکارتا ہے۔۔۔ کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اختیار میں کچھ بھی نہیں، جسے اللہ تعالیٰ نفع پہنچانا چاہے آپ اسے کوئی نفع نہیں پہنچا سکتے اور اللہ تعالیٰ جس سے ضرور دور نہ کرے آپ اس سے ضرر کو دور نہیں کرسکتے۔ اسی طرح آپ کے پاس علم بھی صرف وہی ہے جو اللہ تعالیٰ نے آپ کو عطا کیا ہے۔ صرف تبشیر و انذار اور ان پر عمل ہی فائدہ دیتا ہے جن کے ساتھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو مبعوث کیا گیا۔ یہ تبشیر اور انذار ہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے فائدہ ہے جو ماں باپ، دوست احباب اور بھائیوں کی طرف سے فائدہ پر فوقیت رکھتا ہے، یہی وہ نفع ہے جس کے ذریعے سے بندوں کو ہر بھلائی پر آمادہ کیا جاتا ہے اور ہر برائی سے ان کے لئے حفاظت ہے اور اس میں ان کے لئے حددرجہ بیان اور توضیح ہے۔