وَاتَّخَذَ قَوْمُ مُوسَىٰ مِن بَعْدِهِ مِنْ حُلِيِّهِمْ عِجْلًا جَسَدًا لَّهُ خُوَارٌ ۚ أَلَمْ يَرَوْا أَنَّهُ لَا يُكَلِّمُهُمْ وَلَا يَهْدِيهِمْ سَبِيلًا ۘ اتَّخَذُوهُ وَكَانُوا ظَالِمِينَ
اور موسیٰ (علیہ السلام) کی قوم نے اس کے پیچھے اپنے زیوروں سے ایک بچھڑا بنایا ، وہ ایک جسم تھا گائے کی طرح آواز کرتا تھا ، کیا انہوں نے یہ دیکھا کہ وہ نہ ان سے بولتا ہے اور نہ انہیں ہدایت کرسکتا ، اسے قبول کرلیا ، اور ظالم ہوگئے (ف ١) ۔
﴿وَاتَّخَذَ قَوْمُ مُوسَىٰ مِن بَعْدِهِ مِنْ حُلِيِّهِمْ عِجْلًا جَسَدًا ﴾ ” اور بنا لیا موسیٰ کی قوم نے اس کے پیچھے اپنے زیور سے بچھڑا، ایک بدن“۔ بچھڑے کے اس بات کو سامری نے بنایا تھا۔ اس نے فرشتے کے نشان قدم سے مٹھی بھر مٹی لے کر بچھڑے کے بت پر ڈال دی۔﴿لَّهُ خُوَارٌ﴾” اس کی آواز تھی۔“ اس میں سے بچھڑے کی آواز آنے لگے۔ بنی اسرائیل نے اس کو معبود بنا لیا اور اس کی عبادت کرنے لگے۔ سامری نے کہا ” یہ تمہارا اور موسیٰ کا معبود ہے، موسیٰ اسے بھول گیا ہے اور اسے تلاش کرتا پھر رہا ہے۔“۔۔۔ یہ ان کی سفاہت اور قلت بصیرت کی علامت تھی ان پر زمین اور آسمانوں کے پروردگار اور ایک بچھڑے کے درمیان کیسے اشتباہ واقع ہوگیا۔ بچھڑا تو کمزور ترین مخلوق ہے؟ اسی لئے اللہ تبارک و تعالیٰ نے واضح فرمایا کہ اس بچھڑے کے اندر ایسی صفات ذاتی یا صفات فعلی موجود نہیں ہیں جو اس کے معبود ہونے کے استحقاق کو ثابت کرتی ہوں۔ چنانچہ فرمایا : ﴿أَلَمْ يَرَوْا أَنَّهُ لَا يُكَلِّمُهُمْ ﴾ ” کیا انہوں نے یہ نہیں دیکھا کہ وہ ان سے بات بھی نہیں کرتا“ یعنی کلام کرنے سے محرومی ایک بہت بڑا نقص ہے، وہ خود اس حیوان سے زیادہ کامل حالت کے مالک ہیں جو بولنے کی قدرت نہیں رکھتا۔ ﴿وَلَا يَهْدِيهِمْ سَبِيلًا﴾” اور نہیں بتلاتا ان کو راستہ“ یعنی وہ کسی دینی طریقے کی طرف ان کی راہنمائی نہیں کرسکتا اور نہ انہیں کوئی دنیاوی فائدہ عطا کرسکتا ہے۔ انسانی عقل و فطرت میں یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ کسی ایسی ہستی کو خدا بنانا جو کلام نہیں کرسکتی جو کسی کو نفع و نقصان نہیں دے سکتی، سب سے بڑا باطل اور سب سے بڑی بے وقوفی ہے۔ بنا بریں فرمایا : ﴿اتَّخَذُوهُ وَكَانُوا ظَالِمِينَ﴾” انہوں نے اس کو معبود بنا لیا اور وہ ظالم تھے“ کیونکہ انہوں نے ایسی ہستی کی عبادت کی جو عبادت کی مستحق نہ تھی، انہوں نے اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک کیا جس پر اللہ تعالیٰ نے کوئی دلیل نازل نہیں فرمائی۔ یہ آیت کریمہ اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ جو کوئی اللہ تعالیٰ کے کلام کا انکار کرتا ہے، تو وہ تمام خصائص الٰہیہ کا منکر ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ذکر فرمایا ہے کہ کلام نہ کرنا اس ہستی کے الہ ہونے کی عدم صلاحیت پر دلیل ہے جو کلام نہیں کرسکتی۔