وَلَمَّا جَاءَهُمْ رَسُولٌ مِّنْ عِندِ اللَّهِ مُصَدِّقٌ لِّمَا مَعَهُمْ نَبَذَ فَرِيقٌ مِّنَ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ كِتَابَ اللَّهِ وَرَاءَ ظُهُورِهِمْ كَأَنَّهُمْ لَا يَعْلَمُونَ
اور جب خدا کی طرف سے ان کے پاس رسول پہنچا (ف ٢) جو اسے جو ان کے پاس ہے سچ بتاتا ہے ، سب اہل کتاب میں سے ایک فریق نے خدا کی کتاب کو اپنی پیٹھ کے پیچھے پھینک دیا ، گویا وہ جانتے ہی نہ تھے ۔
یعنی جب ان کے پاس رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس حق کے ساتھ یہ عظیم کتاب لے کر آئے جو ان کے پاس موجود کتاب کے موافق تھا اور وہ یہ دعویٰ بھی کرتے تھے کہ وہ اپنی کتاب پر عمل کرتے ہیں۔ تو انہوں نے اس رسول اور اس کتاب کو ماننے سے انکار کردیا جس کو یہ رسول لے کر آئے ﴿ نَبَذَ فَرِیْقٌ مِّنَ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْکِتٰبَ ڎ کِتٰبَ اللّٰہِ﴾ ” اہل کتاب کے ایک گروہ نے اللہ کی کتاب کو پھینک دیا“ یعنی وہ کتاب جو ان کی طرف نازل کی گئی تھی اس کو بے رغبتی کے ساتھ دور پھینک دیا ﴿وَرَاءَ ظُهُورِهِمْ﴾ ” اپنی پیٹھوں کے پیچھے“ روگردانی اور اعراض کے لیے یہ بلیغ ترین محاورہ ہے گویا وہ اپنے اس فعل کے ارتکاب میں سخت جہالت کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔ حالانکہ وہ اس رسول کی صداقت اور جو کچھ وہ لایا ہے اس کی حقیقت کو خوب جانتے ہیں۔ اس سے واضح ہوگیا کہ اہل کتاب کے اس گروہ کے ہاتھ میں کچھ بھی باقی نہیں جبکہ یہ اس رسول پر ایمان نہیں لائے۔ ان کا اس رسول کو نہ ماننا اپنی کتاب کا انکار کرنا ہے مگر وہ اس بات کو سمجھتے نہیں۔ حکمت الٰہی اور عادت قدسی یہ ہے کہ جو کوئی اس چیز کو ترک کرتا ہے جو اسے فائدہ دیتی ہے اور جس سے فائدہ اٹھانا اس کے لیے ممکن ہو لیکن وہ فائدہ نہ اٹھائے تو اسے ایسے کام میں مشغول کردیا جاتا ہے جو اس کے لیے نقصان دہ ہوتا ہے۔ پس جو کوئی اللہ تعالیٰ کی عبادت سے منہ موڑتا ہے، اسے بتوں کی عبادت میں مبتلا کردیا جاتا ہے۔ جو کوئی اللہ تعالیٰ کی محبت، اس سے خوف اور اس پر امید کو ترک کرتا ہے وہ غیر اللہ کی محبت، اس سے خوف اور اس سے امید میں مبتلا ہوجاتا ہے۔ جو اللہ تعالیٰ کی اطاعت میں مال خرچ نہیں کرتا، اسے شیطان کی فرمانبرداری میں مال خرچ کرنا پڑتا ہے۔ جو کوئی اپنے رب کے سامنے ذلت اور فروتنی کا اظہار نہیں کرتا اسے بندوں کے سامنے ذلیل ہونا پڑتا ہے اور جو کوئی حق کو چھوڑ دیتا ہے اسے باطل میں مبتلا کردیا جاتا ہے۔