وَقَالَ الْمَلَأُ مِن قَوْمِ فِرْعَوْنَ أَتَذَرُ مُوسَىٰ وَقَوْمَهُ لِيُفْسِدُوا فِي الْأَرْضِ وَيَذَرَكَ وَآلِهَتَكَ ۚ قَالَ سَنُقَتِّلُ أَبْنَاءَهُمْ وَنَسْتَحْيِي نِسَاءَهُمْ وَإِنَّا فَوْقَهُمْ قَاهِرُونَ
اور قوم فرعون کے سردار بولے ، کیا تو موسیٰ (علیہ السلام) اور اس کی قوم کو چھوڑتا ہے تاکہ زمین میں فساد کریں ، اور تجھے اور تیری معبودں کو ترک کئے رہیں ؟ اس نے کہا اب ہم ان کے لڑکوں کو قتل کرینگے ، اور لڑکیوں کو جیتا رکھیں گے ، اور ہم ان پر غالب ہیں (ف ١) ۔
ظاہر ہے کہ فرعون نے جو دھمکی دی تھی اس پر عمل کیا ہوگا اور اللہ تبارک و تعالیٰ نے ان کو ایمان پر ثابت قدم رکھا ہوگا۔ یہ تو تھا ان جادوگروں کا حال، فرعون، اس کے سرداروں اور ان کے پیرو کار عوام نے اللہ تعالیٰ کی آیات کے ساتھ تکبر کیا اور ظلم کے ساتھ ان کا انکار کردیا۔ انہوں نے فرعون کو موسیٰ علیہ السلام پر ہاتھ ڈالنے پر اکساتے ہوئے اور یہ سمجھتے ہوئے کہ موسیٰ علیہ السلام جو کچھ لائے ہیں سب باطل اور فاسد ہے۔۔۔ کہا ﴿ أَتَذَرُ مُوسَىٰ وَقَوْمَهُ لِيُفْسِدُوا فِي الْأَرْضِ ﴾” کیا تم موسیٰ علیہ السلام اور اس کی قوم کو چھوڑ دو گے کہ ملک میں خرابی کریں۔“ یعنی کیا تم موسیٰ علیہ السلام اور اس کی قوم کو چھوڑ رہے ہو، تاکہ وہ دعوت توحید، مکارم اخلاق اور محاسن اعمال کی تلقین کے ذریعے سے زمین میں فساد پھیلائے۔ حالانکہ ان اخلاق و اعمال میں زمین کی اصلاح ہے اور جس راستے پر فرعون اور اس کے سردار گامزن تھے، وہ درحقیقت فساد کا راستہ ہے مگر ان ظالموں کو کوئی پروا نہ تھی کہ وہ کیا کہہ رہے ہیں۔ ﴿ وَيَذَرَكَ وَآلِهَتَكَ﴾ ” وہ تجھے اور تیرے معبودوں کو چھوڑ دے“ اور لوگوں کو تیری اطاعت کرنے سے روک دے۔ ﴿قَالَ﴾ فرعون نے ان کو جواب دیا کہ وہ بنی اسرائیل کو موسیٰ علیہ السلام کے ساتھ اس حالت میں رکھے گا جس سے ان کی آبادی اور تعداد میں اضافہ نہیں ہوگا۔ اس طرح فرعون اور اس کی قوم۔۔۔ بزعم خود۔۔۔ ان کے ضرر سے محفوظ ہوجائیں گے۔ چنانچہ کہنے لگا : ﴿سَنُقَتِّلُ أَبْنَاءَهُمْ وَنَسْتَحْيِي نِسَاءَهُمْ﴾ ” ہم ان کے بیٹوں کو قتل اور عورتوں کو زندہ رکھیں گے“ یعنی ان کی عورتوں کو باقی رکھیں گے اور انہیں قتل نہیں کریں گے۔ جب تک یہ حکمت عملی اختیار کریں گے تو ہم ان کی کثرت تعداد سے محفوظ رہیں گے اور ہم باقی ماندہ لوگوں سے خدمت بھی لیتے رہیں گے اور ان سے جو کام چاہیں گے لیں گے۔ ﴿وَإِنَّا فَوْقَهُمْ قَاهِرُونَ﴾ ” اور ہم ان پر غالب ہیں“ یعنی وہ ہماری حکمرانی اور تغلب سے باہر نکلنے پر قادر نہ ہوں گے۔ یہ فرعون کا انتہا کو پہنچا ہوا ظلم و جبر، اس کی سرکشی اور بے رحمی تھی۔