فَتَوَلَّىٰ عَنْهُمْ وَقَالَ يَا قَوْمِ لَقَدْ أَبْلَغْتُكُمْ رِسَالَاتِ رَبِّي وَنَصَحْتُ لَكُمْ ۖ فَكَيْفَ آسَىٰ عَلَىٰ قَوْمٍ كَافِرِينَ
شیعب (علیہ السلام) ان سے الٹا پھرا ، اور کہا اے قوم میں نے اپنے رب کا پیغام تجھے پہنچایا ، اور تمہاری خیرخواہی کی ، پھر میں کافروں پر کیا غم کھاؤں (ف ١) ۔
﴿وَقَالَ﴾ اور ان کی موت کے بعد ان کو زجر و توبیخ کرتے ہوئے ان سے مخاطب ہوا : ﴿يَا قَوْمِ لَقَدْ أَبْلَغْتُكُمْ رِسَالَاتِ رَبِّي ﴾ ” اے میری قوم ! میں نے تم کو اپنے رب کے پیغام پہنچا دیئے۔“ یعنی میں نے اپنے رب کا پیغام تم تک پہنچا دیا اور اسے کھول کھول کر بیان کردیا حتیٰ کہ یہ پیغام تمہیں پوری طرح پہنچ گیا اور تمہارے دلوں نے اچھی طرح اسے سمجھ لیا۔ ﴿وَنَصَحْتُ لَكُمْ﴾ ” اور میں نے تمہاری خیر خواہی کی“ مگر تم نے میری خیر خواہی کو قبول کیا نہ تم نے میری بات مانی بلکہ اس کے برعکس تم نے نافرمانی کی اور سرکشی اختیار کی۔ ﴿ فَكَيْفَ آسَىٰ عَلَىٰ قَوْمٍ كَافِرِينَ﴾ ” تو میں کافروں پر رنج و غم کیوں کروں۔“ یعنی میں ایسے لوگوں کے انجام پر کیوں کر غمزدہ ہوسکتا ہوں جن میں کوئی بھلائی نہ تھی، بھلائی ان کے پاس آئی مگر انہوں نے اسے ٹھکرا دیا، اسے قبول نہ کیا، یہ لوگ شر کے سوا کسی چیز کے لائق نہ تھے۔ پس یہ اس چیز کے مستحق نہیں ہیں کہ ان کی ہلاکت پر افسوس کیا جائے بلکہ ان کی ہلاکت اور استیصال پر تو خوش ہونا چاہئے۔ اے اللہ ! فضیحت اور رسوائی سے تیری پناہ ! اس سے بڑھ کر کون سی بدبختی اور سزا ہوسکتی ہے کہ وہ اس حالت کو پہنچ جائیں کہ مخلوق میں سب سے زیادہ خیر خواہ ہستی بھی ان سے برأت کا اظہار کرے۔