هَلْ يَنظُرُونَ إِلَّا أَن تَأْتِيَهُمُ الْمَلَائِكَةُ أَوْ يَأْتِيَ رَبُّكَ أَوْ يَأْتِيَ بَعْضُ آيَاتِ رَبِّكَ ۗ يَوْمَ يَأْتِي بَعْضُ آيَاتِ رَبِّكَ لَا يَنفَعُ نَفْسًا إِيمَانُهَا لَمْ تَكُنْ آمَنَتْ مِن قَبْلُ أَوْ كَسَبَتْ فِي إِيمَانِهَا خَيْرًا ۗ قُلِ انتَظِرُوا إِنَّا مُنتَظِرُونَ
کیا یہ اس بات کا انتظار کر رہے ہیں کہ ان کے پاس فرشتے آئیں ، یا تیرا رب ان کے پاس آئے یا کوئی نشانی تیرے رب کی ظاہر ہو (حالانکہ) جس دن تیرے رب کی ایک نشانی ظاہر ہوگی کسی کو اس کا ایمان مفید نہ ہوگا ، جو اس سے پہلے ایمان نہ لایا تھا ، یا اپنے ایمان میں پہلے سے کچھ بھلائی نہ کی تھی ، تو کہہ راہ تکتے رہو ، (ف ٢) ۔ ہم بھی راہ تکتے ہیں ،
1- قرآن مجید کے نزول اور حضرت محمد (ﷺ) کی رسالت کے ذریعے سے ہم نے حجت قائم کردی ہے۔ اب بھی اگر یہ اپنی گمراہی سے باز نہیں آتے تو کیا یہ اس بات کے منتظر ہیں کہ ان کے پاس فرشتے آئیں یعنی ان کی روحیں قبض کرنے کے لئے، اس وقت یہ ایمان لائیں گے؟ یا آپ کا رب ان کے پاس آئے، یعنی قیامت برپا ہوجائے اور وہ اللہ کے روبرو پیش کئے جائیں۔ اس وقت یہ ایمان لائیں گے؟ یا آپ کے رب کی کوئی بڑی نشانی آئے۔ جیسے قیامت کے قریب سورﺝ مشرق کے بجائے مغرب سے طلوع ہوگا۔ تو اس قسم کی بڑی نشانی دیکھ کر یہ ایمان لائیں گے؟ اگلے جملے میں وضاحت کی جارہی ہے کہ اگر یہ اس انتظار میں ہیں تو بہت ہی نادانی کا مظاہرہ کررہے ہیں۔ کیونکہ بڑی نشانی کے ظہور کے بعد کافر کا ایمان اور فاسق وفاجر شخص کی توبہ قبول نہیں ہوگی۔ صحیح حدیث ہے نبی (ﷺ) نے فرمایا کہ ”قیامت قائم نہیں ہوگی یہاں تک کہ سورﺝ (مشرق کے بجائے) مغرب سے طلوع ہو پس جب ایسا ہوگا اور لوگ اسے مغرب سے طلوع ہوتے دیکھیں گے تو سب ایمان لے آئیں گے“ پھر آپ (ﷺ) نے یہ آیت تلاوت فرمائی ﴿لا يَنْفَعُ نَفْسًا إِيمَانُهَا لَمْ تَكُنْ آمَنَتْ مِنْ قَبْلُ﴾ یعنی اس وقت ایمان لانا کسی کو نفع نہیں دے گا جو اس سے قبل ایمان نہ لایا ہوگا۔ (صحیح بخاری۔ تفسیر سورۃ الانعام ) 2- یعنی کافر کا ایمان فائدہ مند، یعنی قبول نہیں ہوگا۔ 3- اس کا مطلب ہے کہ کوئی گناہ گار مومن گناہوں سے توبہ کرے گا تو اس وقت اس کی توبہ قبول نہیں ہوگی اور اس کے بعد عمل صالح غیرمقبول ہوگا۔ جیسا کہ احادیث بھی اس پر دلالت کرتی ہیں۔ 4- یہ ایمان نہ لانے والوں اور توبہ نہ کرنے والوں کے لئے تہدید ووعید ہے۔ قرآن کریم میں یہی مضمون سورۂ محمد: 18 اور سورۂ مومن: 84 ، 85 میں بھی بیان کیا گیا ہے۔