سورة الانعام - آیت 143

ثَمَانِيَةَ أَزْوَاجٍ ۖ مِّنَ الضَّأْنِ اثْنَيْنِ وَمِنَ الْمَعْزِ اثْنَيْنِ ۗ قُلْ آلذَّكَرَيْنِ حَرَّمَ أَمِ الْأُنثَيَيْنِ أَمَّا اشْتَمَلَتْ عَلَيْهِ أَرْحَامُ الْأُنثَيَيْنِ ۖ نَبِّئُونِي بِعِلْمٍ إِن كُنتُمْ صَادِقِينَ

ترجمہ سراج البیان - مستفاد از ترجمتین شاہ عبدالقادر دھلوی/شاہ رفیع الدین دھلوی

اللہ نے آٹھ جوڑے پیدا کئے ہیں بھیڑ میں سے دو ، اور بکری میں سے دو ، تو اہل مکہ سے پوچھ کہ کیا دونوں نر حرام کئے ہیں یا دونوں مادہ یا جو ان دوں کے بچہ دانیوں میں لپٹ رہا ہے مجھے علم کے ساتھ خبر دو ، اگر تم سچے ہو۔ (ف ١)

تفسیر مکہ - حافظ صلاح الدین یوسف حافظ

* یعنی أَنْشَأَ ثَمَانِيَةَ أَزْوَاجٍ (اسی اللہ نے آٹھ زو پیدا کئے ) أَزْوَاجٌ، زَوْجٌ کی جمع ہے۔ ایک ہی جنس کے نر اور مادہ کو زو (جوڑا) کہا جاتا ہے اور ان دونوں کے ایک ایک فرد کو بھی زو کہہ لیا جاتا ہے کیونکہ ہر ایک دوسرے کے لئے زو ہوتا ہے۔ قرآن کے اس مقام پر بھی ازوا، افراد ہی کے معنی میں استعمال ہوا ہے۔ یعنی 8 افراد اللہ نے پیدا کئے۔ جو باہم ایک دوسرے کا جوڑا ہیں۔ یہ نہیں کہ زو (معنی جوڑے) پیدا کئے کیوں کہ اس طرح تعداد 8 کے بجائے 16ہوجائے گی جو آیت کے اگلے حصہ کے مطابق نہیں ہے۔ ** یہ ثَمَانِيَةَ سے بدل ہے اور مراد دو قسم سے نر اور مادہ ہے یعنی بھیڑ سے نر اور مادہ اور بکری سے نر اور مادہ پیدا کئے (بھیڑ میں ہی دنبہ چھترا بھی شامل ہے )۔ *** مشرکین جو بعض جانوروں کو اپنے طور پر ہی حرام کرلیتے تھے، اس کے حوالے سے اللہ تعالیٰ پوچھ رہا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے نروں کو حرام کیا ہے یا ماداؤں کو یا اس بچے کو جو دونوں ماداؤں کے پیٹ میں ہیں؟ مطلب یہ ہے کہ اللہ نے تو کسی کو بھی حرام نہیں کیا ہے۔ **** تمہارے پاس حرام قرار دینے کی کوئی یقینی دلیل ہے تو پیش کرو کہ بَحِيرَةٌ، سَائِبَةٍ، وَصِيلَةٍ اورحَامٍ وغیرہ اس دلیل کی بنیاد پر حرام ہیں۔