سورة الانعام - آیت 70

وَذَرِ الَّذِينَ اتَّخَذُوا دِينَهُمْ لَعِبًا وَلَهْوًا وَغَرَّتْهُمُ الْحَيَاةُ الدُّنْيَا ۚ وَذَكِّرْ بِهِ أَن تُبْسَلَ نَفْسٌ بِمَا كَسَبَتْ لَيْسَ لَهَا مِن دُونِ اللَّهِ وَلِيٌّ وَلَا شَفِيعٌ وَإِن تَعْدِلْ كُلَّ عَدْلٍ لَّا يُؤْخَذْ مِنْهَا ۗ أُولَٰئِكَ الَّذِينَ أُبْسِلُوا بِمَا كَسَبُوا ۖ لَهُمْ شَرَابٌ مِّنْ حَمِيمٍ وَعَذَابٌ أَلِيمٌ بِمَا كَانُوا يَكْفُرُونَ

ترجمہ سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

اور جنہوں نے اپنے دین کو کھیل تماشہ ٹھہرایا ، اور حیات و دنیا نے انہیں فریب دیا ، تو انہیں چھوڑ دے ‘ اور قرآن سے نصیحت دے ، کہ کوئی جی اپنے اعمال میں گرفتار نہ ہوجائے ، اس کے لئے اللہ کے سوا کوئی ولی اور شفیع نہیں ہے ، اور اگر وہ سارے معاوضے بھی اپنے بدلے میں دیگا تو بھی وہ اس سے قبول نہیں کئے جاویں گے ، یہی لوگ ہیں جو اپنے اعمال کے سبب گرفتار ہوں گے ، ان کے لئے ان کے کفر کے بدلے میں کھولتا ہوا پانی اور دکھ دینے والا عذاب ہے (ف ٣) ۔

تفسیر احسن البیان - حافظ صلاح الدین یوسف رحمہ اللہ

1- ”تُبْسَلَأي: لِئَلاَّ تُبْسَلَ، بَسَلٌ کے اصل معنی تو منع کے ہیں، اسی سے ہے شُجَاعٌ بَاسِلٌ لیکن یہاں اس کے مختلف معنی کئے گئے ہیں۔ (1) تُسَلَّمُ (سونپ دیئے جائیں) (2) تُفْضَحُ (رسوا کردیا جائے) (3) تُؤَاخَذُ (مواخذہ کیا جائے) (4) تُجَازَى (بدلہ دیا جائے)۔ امام ابن کثیر فرماتے ہیں کہ سب کے معنی قریب قریب ایک ہیں۔ خلاصہ یہ ہے کہ انہیں اس قرآن کے ذریعے سے نصیحت کریں۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ نفس کو، جو اس نے کمایا، اس کے بدلے ہلاکت کے سپرد کردیاجائے۔ یا رسوائی اس کا مقدر بن جائے یا وہ مواخذہ اور مجازات کی گرفت میں آجائے۔ ان تمام مفہوم کو فاضل مترجم نے (پھنس نہ جائے) سے تعبیر کیا ہے۔ 2- دنیا میں انسان عام طور پر کسی دوست کی مدد یا کسی سفارش سے یا مالی معاوضہ دے کرچھوٹ جاتا ہے۔ لیکن آخرت میں یہ تینوں ذریعے کام نہیں آئیں گے۔ وہاں کافروں کا کوئی دوست نہ ہوگا جو انہیں اللہ کی گرفت سے بچا لے، نہ کوئی سفارشی ہو گا جو انہیں عذاب الٰہی سے نجات دلا دے اور نہ کسی کے پاس معاوضہ دینے کے لئے کچھ ہوگا، اگر بالفرض ہو بھی تو وہ قبول نہیں کیا جائے گا کہ وہ دے کر چھوٹ جائے۔ یہ مضمون قرآن مجید میں متعدد مقامات پر بیان ہوا ہے۔