سورة البقرة - آیت 75

أَفَتَطْمَعُونَ أَن يُؤْمِنُوا لَكُمْ وَقَدْ كَانَ فَرِيقٌ مِّنْهُمْ يَسْمَعُونَ كَلَامَ اللَّهِ ثُمَّ يُحَرِّفُونَهُ مِن بَعْدِ مَا عَقَلُوهُ وَهُمْ يَعْلَمُونَ

ترجمہ سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

اب (اے مسلمانو ! ) کیا تم توقع رکھتے ہو کہ وہ (یہودی) تمہاری بات مانیں گے اور ان میں ایک فرقہ تھا کہ خدا کا کلام سنتے تھے ، پھر اس کو بدل ڈالتے تھے سمجھنے کے بعد اور وہ جانتے تھے (ف ١) ۔

تفسیر احسن البیان - حافظ صلاح الدین یوسف رحمہ اللہ

1-اہل ایمان سے خطاب کرکے یہودیوں کی بابت کہا جارہا ہے کہ کیا تمہیں ان کے ایمان لانے کی امید ہے، درآں حالیکہ ان کے پچھلے لوگوں میں ایک فریق ایسا بھی تھا جو کلام الٰہی میں جانتے بوجھتے تحریف (لفظی ومعنوی) کرتا تھا۔ یہ استفہام انکاری ہے، یعنی ایسے لوگوں کے ایمان لانے کی قطعاً امید نہیں۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ جو لوگ دنیوی مفادات، یا حزبی تعصبات کی وجہ سے کلام الٰہی میں تحریف تک کرنے سے گریز نہیں کرتے، وہ گمراہی کی ایسی دلدل میں پھنس جاتے ہیں کہ اس سے نکل نہیں پاتے۔ امت محمدیہ کے بہت سے علما ومشائخ بھی بدقسمتی سے قرآن وحدیث میں تحریف کے مرتکب ہیں۔ اللہ تعالیٰ اس جرم سے محفوظ رکھے۔ (دیکھیے سورۂ نساء آیت 77 کا حاشیہ)