سورة البقرة - آیت 74

ثُمَّ قَسَتْ قُلُوبُكُم مِّن بَعْدِ ذَٰلِكَ فَهِيَ كَالْحِجَارَةِ أَوْ أَشَدُّ قَسْوَةً ۚ وَإِنَّ مِنَ الْحِجَارَةِ لَمَا يَتَفَجَّرُ مِنْهُ الْأَنْهَارُ ۚ وَإِنَّ مِنْهَا لَمَا يَشَّقَّقُ فَيَخْرُجُ مِنْهُ الْمَاءُ ۚ وَإِنَّ مِنْهَا لَمَا يَهْبِطُ مِنْ خَشْيَةِ اللَّهِ ۗ وَمَا اللَّهُ بِغَافِلٍ عَمَّا تَعْمَلُونَ

ترجمہ سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

اس کے پھر تمہارے دل سخت ہوگئے ، سو وہ جیسے پتھر یا ان سے بھی زیادہ سخت ، اور پتھروں میں بھی بعض ایسے ہیں کہ جن سے نہریں پھوٹ نکلتی ہیں اور بعض ان میں وہ بھی ہیں پھٹ جاتے ہیں اور ان سے پانی نکلتا ہے اور بعض ان میں وہ بھی ہیں جو اللہ کے ڈر سے گر پڑتے ہیں اور خدا تمہارے کاموں سے بےخبر نہیں ہے (ف ٢) ۔

تفسیر احسن البیان - حافظ صلاح الدین یوسف رحمہ اللہ

1-یعنی گزشتہ معجزات اور یہ تازہ واقعہ کہ مقتول دوبارہ زندہ ہوگیا، دیکھ کر بھی تمہارے دلوں کے اندر ”إِنَابَةٌ إِلَى اللهِ“ کا داعیہ اور توبہ واستغفار کا جذبہ پیدا نہیں ہوا۔ بلکہ اس کے برعکس تمہارے دل پتھر کی طرح سخت، بلکہ اس سے بھی زیادہ سخت ہوگئے۔ دلوں کا سخت ہوجانا یہ افراد اور امتوں کے لئے سخت تباہ کن، اور اس بات کی علامت ہوتا ہے کہ دلوں سے اثر پذیری کی صلاحیت سلب اور قبول حق کی استعداد ختم ہوگئی ہے، اس کے بعد اس کی اصلاح کی توقع کم اور مکمل فنا اور تباہی کا اندیشہ زیادہ ہوجاتا ہے۔ اسی لئے اہل ایمان کو خاص طور پر تاکید کی گئی ہے: ﴿وَلا يَكُونُوا كَالَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ مِنْ قَبْلُ فَطَالَ عَلَيْهِمُ الأَمَدُ فَقَسَتْ قُلُوبُهُمْ﴾ (الحدید: 16) ”اہل ایمان ان لوگوں کی طرح نہ ہوجائیں جن کو ان سے قبل کتاب دی گئی، لیکن مدت گزرنے پر ان کے دل سخت ہوگئے۔“ 2- پتھروں کی سنگینی کے باوجود، ان سے جو جو فوائد حاصل ہوتے اور جو جو کیفیت ان پر گزرتی ہے، اس کا بیان ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ پتھروں کے اندر بھی ایک قسم کا ادراک واحساس موجود ہے جس طرح کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ﴿تُسَبِّحُ لَهُ السَّمَاوَاتُ السَّبْعُ وَالأَرْضُ وَمَنْ فِيهِنَّ وَإِنْ مِنْ شَيْءٍ إِلا يُسَبِّحُ بِحَمْدِهِ وَلَكِنْ لا تَفْقَهُونَ تَسْبِيحَهُمْ﴾ (بنی اسرائیل: 44) (مزید وضاحت کے لئے سورۂ بنی اسرائیل کی آیت 44 کا حاشیہ دیکھیے)۔