مَا قُلْتُ لَهُمْ إِلَّا مَا أَمَرْتَنِي بِهِ أَنِ اعْبُدُوا اللَّهَ رَبِّي وَرَبَّكُمْ ۚ وَكُنتُ عَلَيْهِمْ شَهِيدًا مَّا دُمْتُ فِيهِمْ ۖ فَلَمَّا تَوَفَّيْتَنِي كُنتَ أَنتَ الرَّقِيبَ عَلَيْهِمْ ۚ وَأَنتَ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ شَهِيدٌ
میں نے ان سے صرف وہی بات کہی ہے جس کا تونے مجھے حکم دیا تھا کہ تم اللہ کی عبادت کرو جو میرا اور تمہارا رب ہے اور جب تک میں ان میں رہا ان سے خبردار رہا پھر جب تونے مجھے قبض کرلیا ، تو تو ہی ان کا نگہبان تھا اور تو ہر شئے پر گواہ ہے (ف ١) ۔
1- حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) نے توحید وعبادت رب کی یہ دعوت عالم شیرخوارگی میں بھی دی، جیسا کہ سورۂ مریم میں ہے اور عمر جوانی وکہولت میں بھی۔ 2- ”تَوَفَّيْتَنِي“ کا مطلب ہے جب تو نے مجھے دنیا سے اٹھا لیا جیسا کہ اس کی تفصیل سورۃ آل عمران کی آیت 55 میں گزرچکی ہے۔ اس سے یہ بات بھی معلوم ہوئی کہ پیغمبروں کو اتنا ہی علم ہوتا ہے جتنا اللہ کی طرف سے انہیں عطا کیا جاتا ہے یا جس کا مشاہدہ وہ اپنی زندگی میں اپنی آنکھوں سے کرتے ہیں۔ ان کے علاوہ ان کو کسی بات کا علم نہیں ہوتا۔ جب کہ عالم الغیب وہ ہوتا ہے جسے بغیر کسی کے بتلائے ہر چیز کا علم ہوتا ہے اور اس کا علم ازل سے ابد تک پر محیط ہوتا ہے۔ یہ صفت علم اللہ کے سوا کسی اور کے اندر نہیں۔ اس لئے عالم الغیب صرف ایک اللہ ہی کی ذات ہے۔ اس کے علاوہ کوئی عالم الغیب نہیں۔ حدیث میں آتا ہے کہ میدان محشر میں نبی (ﷺ) کی طرف آپ کے کچھ امتی آنے لگیں گے تو فرشتے ان کو پکڑ کر دوسری طرف لے جائیں گے، آپ (ﷺ) فرمائیں گے ان کو آنے دو یہ تو میرے امتی ہیں، فرشتے آپ کو بتلائیں گے ”إِنَّكَ لا تَدْرِي مَا أَحْدَثُوا بَعْدَكَ“ (اے محمد! (ﷺ)) آپ ج نہیں جانتے کہ آپ کے بعد انہوں نے دین میں کیا کیا بدعتیں ایجاد کیں جب آپ یہ سنیں گے، تو آپ (ﷺ) نے فرمایا کہ میں بھی اس وقت یہی کہوں گا جو العبد الصالح (حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے کہا ﴿وَكُنْتُ عَلَيْهِمْ شَهِيدًا مَا دُمْتُ فِيهِمْ فَلَمَّا تَوَفَّيْتَنِي كُنْتَ أَنْتَ الرَّقِيبَ عَلَيْهِمْ﴾ (صحیح بخاری، تفسير سورة المائدة وكتاب الأنبياء- صحيح مسلم، باب فناء الدنيا وبيان الحشر يوم القيامة)۔