سورة المآئدہ - آیت 101

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَسْأَلُوا عَنْ أَشْيَاءَ إِن تُبْدَ لَكُمْ تَسُؤْكُمْ وَإِن تَسْأَلُوا عَنْهَا حِينَ يُنَزَّلُ الْقُرْآنُ تُبْدَ لَكُمْ عَفَا اللَّهُ عَنْهَا ۗ وَاللَّهُ غَفُورٌ حَلِيمٌ

ترجمہ سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

مومنو ! ایسی باتیں جن کی حقیقت اگر تم پر کھول دی جائے تو تمہیں بری معلوم ہو رسول سے نہ پوچھا کرو (ف ١) ۔ اور جب تم انکی حقیقت ایسے وقت میں پوچھو گے کہ قرآن اتر رہا ہے تو ان کا بھید تمہارے لئے کھولا جائے گا خدا نے ان سے درگزر کی اور خدا بخشنے والا بردبار ہے ۔

تفسیر احسن البیان - حافظ صلاح الدین یوسف رحمہ اللہ

1- یہ ممانعت نزول قرآن کے وقت تھی۔ خود نبی (ﷺ) بھی صحابہ (رضی الله عنہم) کو زیادہ سوالات کرنے سے منع فرمایا کرتے تھے۔ ایک حدیث میں آپ (ﷺ) نے فرمایا ”مسلمانوں میں وہ سب سے بڑا مجرم ہے جس کے سوال کرنے کی وجہ سے کوئی چیز حرام کردی گئی درآں حالیکہ اس سے قبل وہ حلال تھی“۔ (صحيح البخاری نمبر 7289، وصحيح مسلم، كتاب الفضائل باب توقيره (ﷺ) وترك إكثار سؤاله)